لبنان ایک ایسا ملک ہے جس کی تاریخ بہت امیر اور قدیم ہے، جو ہزاروں سالوں پر محیط ہے۔ یہ زمین مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کا گھر رہی ہے، جس کی شروعات فینیقیوں سے ہوئی جو قدیم بحری ملاح اور تاجر تھے، اور جدید لبنان تک جاری رہی، جو ایک کثیر قومیتی اور کثیر مذہبی ملک ہے۔ لبنان کا جغرافیائی مقام، جو یورپ، ایشیا اور افریقہ کے سنگم پر ہے، نے اسے قدیم تجارتی راستوں کا اہم مرکز بنا دیا، اور اس کی پہاڑوں اور بحیرہ روم کے کنارے نے بہت سی ایسی تقریبات کو دیکھا جو نہ صرف علاقے کو، بلکہ عالمی تاریخ کو بھی تشکیل دیتی ہیں۔
لبنان کی موجودہ سرزمین پر ظہور پذیر ہونے والی پہلی بڑی تہذیب، فینیقیا تھی۔ عیسوی سے پہلے کے دوسرے ہزارے کے آغاز میں فینیقیوں نے تیر، صیدا اور بیبل جیسے کئی شہر ریاستیں قائم کیں۔ یہ شہر اہم تجارتی مراکز تھے، اور فینیقی اپنے بحری ملاح ہونے کی وجہ سے مشہور ہوئے، جنہوں نے پہلی بار مغربی بحیرہ روم میں آبادکاری کا آغاز کیا، بشمول شمالی افریقہ کے کارتاژ۔
فینیقیوں کا عالمی تہذیب میں سب سے بڑا حصہ ایک حروف تہجی کا قیام تھا، جسے بعد میں یونانیوں نے اپنایا اور جو زیادہ تر جدید حروف تہجیوں کی بنیاد بنا، بشمول لاطینی اور سریلی زبانوں کے۔ فینیقی بھی ہنر مند کاریگر اور تاجروں کے طور پر جانے جاتے تھے جو بنفشی کپڑے، شیشہ کے مواد اور دیودار کی لکڑی بیچتے تھے، جس نے انہیں دیگر تہذیبوں کے لیے اہم شراکت دار بنایا۔
عیسوی سے پہلے کے چھٹے صدی میں لبنان فارسی سلطنت کے زیر کنٹرول آگیا۔ فینیقی شہر ترقی کرتے رہے، لیکن اب وہ فارسی مفادات کے لیے کام کر رہے تھے، اپنی کشتیوں کو سلطنت کے بحری مہمات کے لیے فراہم کرتے تھے۔ عیسوی سے پہلے 333 میں سکندر مقدونی نے لبنان پر قبضہ جمایا، جس نے ہیلینسٹک دور کا آغاز کیا، جس کے دوران یونانی ثقافت اور زبان پورے علاقے میں پھیل گئیں۔
سکندر کی موت کے بعد اس کی سلطنت تقسیم ہوئی، اور لبنان بطلیموس اور بعد میں سلیوکیوں کے تحت آگیا۔ ہیلینسٹک ثقافت کا مقامی آبادی پر گہرا اثر ہوا، تاہم فینیقی شہر اپنی انفرادیت کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہے۔ اس دور میں رومی جمہوریہ کے ساتھ رابطے بھی مضبوط ہوئے، جو بعد میں علاقے میں غالب قوت بن جائے گی۔
عیسوی سے پہلے 64 میں لبنان رومی سلطنت کا حصہ بن گیا۔ رومیوں نے امن اور استحکام کے ساتھ ساتھ پھلتے پھولتے علاقے کی معیشت اور ثقافت میں اضافہ کیا۔ اس دور میں لبنان میں بڑے معابد تعمیر کیے گئے، جیسے باعلبک میں موجود زئیوپیترل کے معبد، جو دنیا کے بڑے رومی معبدوں میں سے ایک ہے۔
لبنان رومی سلطنت کا حصہ رہا یہاں تک کہ اس کے زوال کے بعد چوتھی صدی میں۔ جب سلطنت کو مشرقی اور مغربی حصوں میں تقسیم کیا گیا تو لبنان بازنطینی سلطنت کا حصہ بن گیا۔ بازنطینی دور عیسائیت کے پھیلاؤ کی علامت ہے، جو علاقے میں غالب مذہب بن گیا۔ اس وقت لبنان میں بے شمار خانقاہیں اور گرجا گھر بنے، جن میں سے کئی آج تک محفوظ ہیں۔
ساتویں صدی میں لبنان کو عرب مسلمان فتح کر لیا۔ اسلام کے آنے سے علاقے کی تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ مسلمان حکمرانوں نے لبنان کو نسبتاً خودمختاری فراہم کی، اور مقامی عیسائی اور مسلمان کمیونٹیز نے ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس دور میں لبنان میں ایک منفرد ثقافت کی ابتدا ہوئی، جو عربی اور بازنطینی عناصر کو ملا کر بنی۔
1516 میں لبنان عثمانی سلطنت کا حصہ بن گیا۔ عثمانیوں نے لبنان کو مقامی جاگیرداری خاندانوں جیسے کہ شیہاب خاندان کے ذریعے کنٹرول کیا، جنہوں نے علاقے کی نسبتاً خودمختاری کو برقرار رکھا۔ لبنان میں مارونیوں، دروزوں، سنیوں اور شیعوں کی مضبوط کمیونٹیز تھیں، جس نے ایک پیچیدہ سیاسی اور مذہبی ڈھانچہ تشکیل دیا۔ لبنان کئی مذہبی اقلیتوں کا پناہ گزین بن گیا، جس نے ایک کثیر الثقافتی معاشرت کی تشکیل میں مدد فراہم کی۔
19ویں صدی میں لبنان بڑی یورپی طاقتوں کے درمیان کشیدگی کے مرکز میں آ گیا، خاص طور پر فرانس اور برطانیہ کے درمیان، جو مشرق وسطی میں اپنی اثر و رسوخ کو بڑھانے کی کوشش کر رہے تھے۔ فرانس عیسائی مارونیوں کا اہم محافظ بن گیا، جبکہ برطانیہ نے مسلمان کمیونٹیز کے ساتھ تعلقات بڑھائے۔ یہ مقابلہ لبنان کی مذہبی کمیونٹیوں کے درمیان داخلی کشیدگی کو بڑھانے کا باعث بنا۔
پہلی عالمی جنگ کے بعد، جب عثمانی سلطنت ٹوٹ گئی، لبنان فرانسیسی مینڈیٹ کے تحت آ گیا۔ 1920 میں ایک بڑا لبنانی ریپبلک قائم کی گئی، جس میں بیروت اور ملحقہ علاقے شامل تھے۔ 1943 میں لبنان نے اپنی آزادی کا باقاعدہ اعلان کیا، اور ملک میں سیاسی نظام قائم کیا گیا جو کہ عیسائیوں، مسلمانوں اور دیگر مذہبی گروہوں کے درمیان طاقت کی تقسیم پر مبنی تھا۔
جنگ کے بعد لبنان نے عرب دنیا میں تجارت، سیاحت اور مالیات کا مرکز بننے کا تیز رفتار آغاز کیا۔ بیروت ایک اہم ثقافتی اور اقتصادی مرکز بن گیا، جس نے لبنان کو "مشرق وسطی کا سوئٹزرلینڈ" کا درجہ دیا۔ تاہم داخلی سیاسی عدم استحکام اور مذہبی کمیونٹیوں کے درمیان کشیدگی بڑھنے لگی۔
1975 میں خانہ جنگی شروع ہوئی، جو 1990 تک جاری رہی۔ اس جنگ نے لبنان کی بڑی انفراسٹرکچر کو تباہ کر دیا اور سینکڑوں ہزاروں افراد کی جانیں لیں۔ اس تنازعے میں مختلف لبنانی سیاسی اور مذہبی دھڑے اور غیر ملکی قوتیں جیسے شام، اسرائیل اور فلسطینی آزادی تنظیم شامل ہوئے۔ خانہ جنگی نے معاشرے میں گہرے زخم چھوڑ دیے اور بہت سے لبنانیوں کی ہجرت کا سبب بنی۔
خانہ جنگی کے اختتام کے بعد لبنان میں بحالی کا عمل شروع ہوا۔ 1990 کی دہائی میں طائف معاہدہ پر دستخط کیے گئے، جس نے طاقت کی مذہبی تقسیم کی تصدیق کی اور ملک میں زندگی کو آہستہ آہستہ معمول پر لانے کا آغاز کیا۔ بیروت کی دوبارہ تعمیر ہوئی، اور ملک نے دوبارہ سیاحوں اور سرمایہ کاروں کو اپنی طرف متوجہ کرنا شروع کر دیا۔
تاہم لبنان سیاسی اور اقتصادی مسائل کا سامنا کرنے میں حوصلہ افزائی کرتا رہا۔ لبنان میں شام کی فوجی موجودگی نے عدم اطمینان پیدا کیا، اور 2005 میں، وزیراعظم رفیق حریری کے قتل کے بعد "سدر کی انقلاب" کا آغاز ہوا، جس کے نتیجے میں شام کی فوجیں ملک سے نکل گئیں۔ اس کے باوجود، لبنان خطے کے تنازعات کا میدان رہتا رہا، جیسے کہ 2006 میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ۔
لبنان ایک ملک ہے جس کی تاریخی وراثت میں مختلف ثقافتوں اور تہذیبوں کے تعامل کی عکاسی ہوتی ہے۔ جدید لبنان مختلف مذہبی اور نسلی گروہوں کا منفرد ملاپ ہے، جنہوں نے اپنی تاریخ کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کیا۔ متعدد آزمائشوں کے باوجود، لبنان مشرق وسطی میں بقا اور تجدید کی علامت بنا ہوا ہے۔