ترکی کی آزادی کی جنگ (1919-1923) ملک کی تاریخ میں ایک اہم واقعہ تھا، جس نے جدید ترک جمہوریہ کے قیام کی بنیاد رکھی۔ یہ تنازع پہلی عالمی جنگ کے بعد ہونے والی سیاسی، اقتصادی اور سماجی تبدیلیوں کا نتیجہ تھا اور یہ ترک قوم کی قومی بیداری اور آزادی کی خواہش کا مظہر بن گیا۔ اس مضمون میں ہم جنگ کی وجوہات، اہم واقعات، اس کے نتائج اور ترکی کے لیے اس کی اہمیت پر غور کریں گے۔
1918 میں پہلی عالمی جنگ میں عثمانی سلطنت کی شکست اور 1920 میں سیور کے معاہدے پر دستخط کے بعد سلطنت کی سرزمین کو فتح حاصل کرنے والی قوتوں کے درمیان تقسیم کیا گیا۔ اس نے ترک آبادی میں ایک بڑے رد عمل کو جنم دیا، جنہوں نے اپنے وطن کی حفاظت کی ضرورت کو محسوس کرنا شروع کر دیا۔
سیور کے معاہدے میں درج ذیل شرائط شامل تھیں:
یہ شرائط ترکوں میں ناپسندیدگی اور آزادی کی جنگ کے لئے جدوجہد کا شوق پیدا کر گئیں۔
آزادی کی جنگ کا آغاز قابض افواج کے خلاف جدوجہد کے لیے دعوت دینے سے ہوا، خصوصاً یونانی فوج کے خلاف جو ترکی کے مغربی علاقوں میں داخل ہو گئی۔
مزاحمت کی تنظیم میں اہم کردار ادا کرنے والے مصطفی کمال (جو بعد میں اتا ترک کے نام سے مشہور ہوئے) نے قومی تحریک کی قیادت سنبھالی۔ 1919 میں وہ سمسون پہنچے، جہاں سے انہوں نے مزاحمت کے لیے تحریک کا آغاز کیا:
آزادی کی جنگ میں کئی اہم لڑائیاں شامل تھیں جو اس کی تقدیر کا تعین کرتی تھیں:
انینی کی پہلی لڑائی (جنوری-فروری 1921) ترکی کی افواج کے لیے ایک اہم فتح ثابت ہوئی، جنہوں نے یونانی فوج کے حملے کو پسپا کیا۔
کوتالجو کی لڑائی (جون 1921) بھی ترکوں کی فتح کے ساتھ ختم ہوئی، جو ان کی مغربی اناتولیہ میں پوزیشن کو مستحکم کرتی تھی۔
جنگ کی چوٹی ڈملوپینار کی لڑائی (اگست 1922) میں ملی، جہاں ترک افواج نے یونانی فوج کو زبردست شکست دی۔ یہ لڑائی قابض افواج کے حتمی اخراج کے لیے فیصلہ کن ثابت ہوئی۔
کامیاب لڑائیوں اور ملک کے زیادہ تر حصے کی آزادی کے بعد، آزادی کی جنگ کا خاتمہ 1923 میں لوزان کے امن معاہدے پر دستخط کے ساتھ ہوا، جس نے نئی ترک جمہوریہ کی سرحدوں کو تسلیم کیا۔
لوزان کے معاہدے نے درج ذیل باتیں طے کیں:
29 اکتوبر 1923 کو ترک جمہوریہ کا اعلان کیا گیا، اور مصطفی کمال اتا ترک اس کے پہلے صدر بنے۔ یہ واقعہ آزادی کی جنگ کے حتمی اختتام اور ترکی کی تاریخ میں ایک نئی عہد کا آغاز بن گیا۔
ترکی کی آزادی کی جنگ کی اہمیت ملک اور عالمی تاریخ دونوں کے لیے بے حد ہے:
جدید ترکی آزادی کی جنگ کے واقعات کو یاد کرتا ہے، ان لوگوں کی یاد کو برقرار رکھتا ہے جنہوں نے آزادی کے لیے جدوجہد کی۔ 30 اگست، ڈملوپینار کی لڑائی میں فتح کا دن، قومی تعطیل بن چکا ہے، جو قوم کی آزادی اور اتحاد کا علامتی دن ہے۔
ترکی کی آزادی کی جنگ، ملک کی تاریخ میں ایک اہم صفحہ ہے، جس نے اس کے مستقبل اور قومی شناخت کا تعین کیا۔ ایسے رہنما، جیسے مصطفی کمال اتا ترک، نے تاریخ پر ناقابل فراموش اثر چھوڑا، جو جدید، خود مختار اور سیکولر ریاست کی طرف راہ ہموار کرتا ہے۔