تاریخی انسائیکلوپیڈیا

ہنگری میں کمیونسٹ دور

مقدمہ

ہنگری میں کمیونسٹ دور دوسری جنگ عظیم کے آخر 1945 سے 1989 تک کا عرصہ ہے، جب ملک نے جمہوری اصلاحات کے نئے دور میں داخل ہوا۔ یہ دور سوشلسٹ نظام کے قیام، سوویت یونان کے اثر و رسوخ، بڑے پیمانے پر جبر اور اقتصادی تبدیلیوں کے ساتھ نمایاں ہے۔

سوشلسٹ نظام کا قیام

دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد ہنگری سوویت فوجوں کے کنٹرول میں آگئی۔ 1945 میں ایک عارضی حکومت کی اتحاد قائم ہوا، جس میں کمیونسٹوں کی بالادستی تھی۔ 1949 میں ہنگری کی عوامی جمہوریہ کا اعلان کیا گیا، اور کمیونسٹ پارٹی نے ریاست پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا۔

سیاسی جبر اور دہشت

نظام کے قیام کے ساتھ ہی سخت جبر شروع ہوا۔ سیاسی مخالفین، بشمول بورژوازی، ہنر مند طبقہ اور مذہبی رہنما، گرفتاریوں، تشدد اور یہاں تک کہ سزائے موت کا شکار ہوئے۔ 1956 میں ہنگری کی انقلاب برپا ہوئی، جس میں عوام نے سوویت اثر و رسوخ اور نظام کے خلاف بغاوت کی۔ انقلاب کو سوویت فوجوں نے دبا دیا، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر جبر ہوا۔

اقتصادی اصلاحات

سخت سیاسی نظام کے باوجود، 1960 کی دہائی میں ہنگری میں اقتصادی اصلاحات کا آغاز ہوا۔ یانوش کادار کی قیادت میں 'گُلَاشا کمیونزم' کی پالیسی متعارف کرائی گئی، جس کا مقصد سوشلسٹ اور سرمایہ دارانہ عناصر کو ملانا تھا۔ اس کے نتیجے میں نجی شعبے کے لئے زیادہ لبرل حالات پیدا ہوئے، جس سے عوام کی زندگی کا معیار دیگر سوشلسٹ ممالک کے مقابلے میں بہتر ہوا۔

سماجی تبدیلیاں

اس دور میں ہنگری کی سماجی زندگی میں اہم تبدیلیاں آئیں۔ تعلیم زیادہ دستیاب ہوگئی، خواندگی اور پیشہ ورانہ تربیت کے پروگراموں کا آغاز ہوا۔ خواتین کو مزید حقوق حاصل ہوئے، بشمول تعلیم اور ملازمت تک رسائی۔ تاہم، ان کامیابیوں کے باوجود، معاشرہ پارٹی کے کنٹرول میں رہا، اور آزاد انتخابات دستیاب نہیں تھے۔

1956 کی ہنگری کی انقلاب

1956 کی ہنگری کی انقلاب ملک کی تاریخ میں ایک علامتی واقعہ تھا۔ اکتوبر 1956 میں طلباء اور مزدوروں نے بدapest کی سڑکوں پر اصلاحات اور آزادی کے مطالبات کے ساتھ نکل پڑے۔ احتجاجوں کے جواب میں حکومت نے کئی رعایتوں کا اعلان کیا، بشمول سوویت فوجوں کے انخلا۔ تاہم، جلد ہی صورت حال بے قابو ہوگئی، اور سوویت یونین نے بغاوت کو کچلنے کے لئے فوجیں بھیج دیں۔ ہزاروں لوگوں کا قتل عام ہوا، اور بہت سے لوگوں کو ہجرت کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔

ثقافتی زندگی اور فن

جبر کے باوجود ہنگری میں ثقافتی زندگی کا فروغ جاری رہا۔ فن اور ادب اہم شعبے رہے، جہاں تخلیق کار اپنے نقطہ نظر اور احتجاجات کا اظہار کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ ایسے ادیب، جیسے امری کیرتیش اور میکلوش رادنوٹی، آزادی کی جدوجہد کے علامت بن گئے۔ اسی دوران سرکاری ثقافتی منصوبے بھی موجود تھے جو ریاستی نظریہ کی عکاسی کرتے تھے۔

سوشلسٹ نظام کا زوال

1980 کی دہائی کے آخر میں ہنگری میں حکومت کے خلاف مظاہرے اور بڑے پیمانے پر احتجاج شروع ہوئے۔ دیگر سوشلسٹ ممالک میں سیاسی تبدیلیوں سے متاثر ہوکر، ہنگری کے لوگوں نے آزاد انتخابات اور جمہوری اصلاحات کا مطالبہ کیا۔ 1989 میں آزاد انتخابات کے انعقاد کا فیصلہ کیا گیا، جس نے سوشلسٹ نظام کا خاتمہ کیا۔

جمہوری نظام کی طرف منتقلی

1990 میں ہنگری میں پہلے آزاد انتخابات ہوئے، جن میں ایک جمہوری حکومت تشکیل دی گئی۔ یہ منتقلی ملک کی تاریخ میں ایک اہم قدم ثابت ہوا، جس کے نتیجے میں ہنگری کی یورپی اتحاد اور نیٹو میں شمولیت ہوئی۔ ملک نے جمہوری اقدار اور مارکیٹ معیشت کی طرف بڑھنا شروع کیا۔

نتیجہ

ہنگری میں کمیونسٹ دور نے ملک کی تاریخ پر گہرا اثر چھوڑا۔ سخت جبر اور اقتصادی مشکلات کے باوجود، ہنگری والوں نے اپنی ثقافت اور شناخت کو برقرار رکھا۔ جمہوریت کی طرف منتقلی آزادی اور خودمختاری کی بحالی کی جانب ایک اہم قدم ثابت ہوئی۔ اس دور کے اسباق آج بھی موزوں ہیں، جب ہنگری اپنی جمہوری تبدیلی کی کوششوں میں ہے۔

بانٹنا:

Facebook Twitter LinkedIn WhatsApp Telegram Reddit email

دیگر مضامین: