آسٹریلیا کی آبادی مقامی قبائل، جنہیں ایبرجینی کہا جاتا ہے، نے 65,000 سال سے زیادہ پہلے کی تھی۔ ان قوموں نے اپنے ماحول کی گہری سمجھ بوجھ کی بنیاد پر منفرد ثقافتیں اور روایات تیار کیں۔ انہوں نے شکار اور جمع کرنے کے مختلف طریقوں کا استعمال کیا، اور پیچیدہ سماجی ڈھانچے اور روحانی اعتقادات بھی رکھے۔
1606 میں ڈچ مہم جو و Willem Janszoon آسٹریلیا کی ساحلوں پر پہنچنے والا پہلا یورپی بنا۔ تاہم، 1770 میں کپتان جیمز کک کے انکشاف نے برطانیہ کے مشرقی ساحل پر حق دعویٰ کا اعلان کرتے ہوئے دنیا کی توجہ مرکوز کی۔
1788 میں برطانیہ نے سڈنی میں پہلی کالونی قائم کی، جس نے بڑے پیمانے پر استعمار کی شروعات کی۔ ابتدائی آبادکار قیدی تھے، جنہیں انگلینڈ کی جیلوں کی بھرتی سے نمٹنے کے لیے خطے میں بھیجا گیا تھا۔
استعمار نے ایبرجینیوں پر مہلک اثرات مرتب کیے۔ بہت سی روایتی زمینیں چھینی گئیں، اور یورپیوں کے ذریعے لائی گئی بیماریوں نے آبادی میں نمایاں کمی کا سبب بنی۔ مقامی قبائل کو تشدد اور امتیاز کا سامنا کرنا پڑا، جس کے لمبی مدت کے اثرات ان کی ثقافتوں اور کمیونٹیز پر پڑے۔
1850 کی دہائی میں آسٹریلیا نے سونے کی لہر کا سامنا کیا، جس نے یورپ، ایشیا اور دیگر علاقوں سے آنے والوں کی تعداد میں اضافہ کیا۔ یہ دور اقتصادی ترقی اور شہروں کی توسیع کا عکاس ہے۔ نئے آبادکار مختلف ثقافتیں اور روایات لے کر آئے، جس سے آبادی کی رنگا رنگی میں اضافہ ہوا۔
1901 میں چھ کالونیوں نے مل کر آسٹریلوی اتحاد قائم کیا۔ یہ واقعہ جدید ریاست کی تشکیل کی بنیاد بنا۔ فیڈریشن نے بنیادی ڈھانچے میں بہتری، معیشت کی ترقی اور سماجی اصلاحات کو فروغ دیا۔
آسٹریلیا نے دوسری عالمی جنگ میں اتحادیوں کے ساتھ مل کر جنگ لڑی۔ جنگ کے بعد ملک نے اقتصادی بحالی اور ہجرت کے ایک دھارے کا سامنا کیا، جس نے آبادی میں اضافے اور معیشت کی حالت بہتر کی۔
آج آسٹریلیا ایک کثیر الثقافتی ملک ہے جس کی مضبوط معیشت اور اعلیٰ معیار زندگی ہے۔ مقامی قبائل اب بھی اپنے حقوق کی پہچان اور ثقافتی ورثے کی بحالی کے لیے لڑ رہے ہیں۔ آسٹریلیا ایک جمہوری معاشرت کے طور پر ترقی کر رہا ہے، بین الاقوامی امور اور عالمی مسائل میں فعال طور پر شامل ہے۔
آسٹریلیا کی تاریخ تضادات اور تنوع سے بھرپور ہے۔ ایبرجینیوں کی قدیم روایات سے لے کر جدید کثیر الثقافتی معاشرے تک، ملک جاری ترقی پذیر اور تبدیلیوں کے ساتھ ڈھلتا جا رہا ہے، جبکہ اپنی جڑوں اور منفرد شناخت کو محفوظ رکھتا ہے۔