قبرص کی تقسیم جدید تاریخ کے سب سے پیچیدہ اور الم ناک واقعات میں سے ایک ہے۔ یہ 1974 میں ہوئی اور یہ قبرص کے یونانی اور ترکی قبرصیوں کے درمیان کئی سالوں کے نسلی تنازعے کا نتیجہ تھی۔ یہ تنازع گہرے تاریخی جڑوں کا حامل ہے اور اس کے نتیجے میں جزیرے پر دو علیحدہ ریاستی تشکیلیں وجود میں آئیں: قبرص جمہوریہ اور شمالی قبرص کی ترک جمہوریہ، جو صرف ترکی نے تسلیم کی۔ اس مضمون میں ہم قبرص کی تقسیم کی طرف جانے والے اہم واقعات اور اس کے نتائج کا جائزہ لیں گے۔
یونانی اور ترکی قبرصیوں کے درمیان تنازع 1950 کی دہائی میں شروع ہوا، جب یونانی قبرصیوں نے یونان کے ساتھ اتحاد کی درخواست کرنا شروع کی (اینوسی)۔ یہ درخواست زیادہ تر یونانی قبرصیوں کی طرف سے حمایت حاصل کر گئی، تاہم ترکی قبرصی اس کی مخالفت کر رہے تھے، خوفزدہ تھے کہ انہیں اپنے حقوق اور ثقافتی شناخت سے محروم ہونا پڑے گا۔
1960 میں، متعدد تنازعات اور عالمی برادری کی مداخلت کے بعد، قبرص نے برطانیہ سے آزادی حاصل کی۔ تاہم ان دو برادریوں کے درمیان توازن قائم کرنے کے لیے بنائی گئی آئین ناکام ثابت ہوئی، اور 1963 میں جھڑپیں شروع ہو گئیں، جو زیادہ سنگین تنازعات کی پیشگوئی کر رہی تھیں۔
1960-1970 کی دہائی کے دوران قبرص میں متعدد تشدد کے واقعات پیش آئے۔ حکومت، جو زیادہ تر یونانی قبرصیوں پر مشتمل تھی، نے ایسے قوانین پاس کرنا شروع کیے جو ترکی قبرصیوں کے حقوق کی خلاف ورزی کرتے تھے۔ 1964 میں، تشدد کے نتیجے میں ایک انسانی سانحہ شروع ہوا، جس کے دوران ہزاروں ترکی قبرصی اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور محفوظ زونز میں پناہ کی تلاش کی۔
1974 میں، یونانی فوجی بغاوت نے قبرص کی قانونی حکومت کا خاتمہ کیا اور ایک ایسا نظام قائم کیا جو یونان کے ساتھ اتحاد کی کوشش کر رہا تھا۔ اس کے جواب میں، ترکی نے 20 جولائی 1974 کو قبرص پر فوجی حملہ کیا، اپنی کارروائی کو ترکی قبرصیوں کے تحفظ کی ضرورت سمجھتے ہوئے۔ اس مداخلت کے نتیجے میں جزیرے کے تقریباً 37 فیصد علاقے پر قبضہ کر لیا گیا۔
ترکی کے حملے کے بعد قبرص میں ایک بڑے پیمانے پر ہجرت ہوئی۔ یونانی قبرصی شمالی علاقوں کو چھوڑ گئے، جبکہ بہت سے ترکی قبرصی، جو پہلے جنوبی علاقے میں رہتے تھے، ان مقبوضہ علاقے میں منتقل ہو گئے۔ 1983 میں شمالی قبرص کی ترک جمہوریہ کا اعلان کیا گیا، جسے البتہ صرف ترکی نے تسلیم کیا۔
یہ تقسیم نئے حالات کا آغاز کر چکی تھی، جب جزیرے پر دو علیحدہ ریاستیں مختلف سیاسی اور اقتصادی نظاموں کے ساتھ ابھر گئیں۔ قبرص ایک نسلی تنازع کی علامت بن گیا، جس کا حل بین الاقوامی سطح پر تلاش کرنا ضروری ہے۔
قبرص کا سوال بین الاقوامی سطح پر بحث کا موضوع بن گیا۔ اقوام متحدہ (UN) نے اس تنازع کو حل کرنے اور جزیرے پر امن بحال کرنے کی کئی کوششیں کیں۔ 1964 سے قبرص پر اقوام متحدہ کی امن فوج (UNFICYP) کام کر رہی ہے، جس کا کام جنگ بندی کو قائم رکھنا اور سیاسی حل حاصل کرنے میں مدد کرنا ہے۔
گزشتہ دہائیوں میں دونوں اطراف کے درمیان متعدد امن مذاکرات بھی ہوئے ہیں، تاہم کوئی بھی تجویز کامیاب ثابت نہیں ہوئی۔ بنیادی اختلافات سیکیورٹی، سیاسی نظام اور پناہ گزینوں کے حقوق سے متعلق ہیں۔
حالیہ سالوں میں قبرص میں دونوں برادریوں کے درمیان تعلقات میں تدریجی بہتری دیکھی گئی ہے۔ باہمی امدادی پروگرام اور قریب آنے کی ابتدائی کوششیں بڑھتی جا رہی ہیں۔ پھر بھی، گہرے تاریخی زخم ابھی تک نہیں بھرتے، اور بہت سے قبرسی اپنے نسلی وابستگی سے متعلق موقف پر قائم رہتے ہیں۔
2017 میں قبرص میں امن مذاکرات ہوئے، لیکن وہ بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوئے۔ تقسیم سے متعلق مسائل اب بھی موجود ہیں، اور قبرص کی وحدت کا سوال ابھی بھی حل طلب ہے۔
قبرص کی تقسیم صرف ایک سیاسی مسئلہ نہیں، بلکہ ایک انسانی المیہ ہے، جو ہزاروں لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کرتا ہے۔ یہ تاریخی تضادات، غلط فہمیاں، اور تشدد کا نتیجہ ہے۔ اس تنازع کو حل کرنے کے لیے جامع نقطہ نظر اور سیاسی خواہش کی ضرورت ہے، نہ صرف قبرسیوں کی طرف سے بلکہ بین الاقوامی برادری کی طرف سے بھی۔ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ امن اور ہم آہنگی صرف گفتگو اور باہمی سمجھوتے کے ذریعے ہی ممکن ہیں۔