تاریخی انسائیکلوپیڈیا

قبرص کی تاریخ

تعارف

قبرص ایک جزیرہ ہے جو بحیرہ روم کے مشرقی حصے میں واقع ہے، جس کی تاریخ قدیم تہذیبوں تک جاتی ہے۔ قبرص نے اپنی اسٹریٹیجک حیثیت اور قدرتی وسائل کی وجہ سے یورپ اور مشرق وسطی کی تاریخ میں اہم کردار ادا کیا۔ صدیوں کے دوران یہ جزیرہ کئی فتوحات، ثقافتی تبادلوں اور سیاسی تبدیلیوں کا منظر رہا ہے جنہوں نے اس کی جدید شناخت کو تشکیل دیا ہے۔

قدیم دور

قبرص پر انسانی موجودگی کے پہلے آثار نئیتھلک دور (تقریباً 10,000 سال قبل مسیح) کے ہیں۔ قدیم ترین آبادییں ایسی جگہوں پر تھیں جیسے کرووا اور چاتال ہیوک۔ اس دور میں قبرص کے باشندے زراعت اور مویشی پالنے میں مشغول تھے اور انہوں نے کاریگری کی مہارتیں بھی विकसित کرنی شروع کیں۔

برونز کے دور میں (تقریباً 2500-1050 قبل مسیح) قبرص مصر، لیوانٹ اور منیائی کریٹ کے درمیان تجارت کا ایک اہم مرکز بن گیا۔ آثار قدیمہ کی دریافتوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہاں ایسے ترقی یافتہ شہر موجود تھے جیسے سولئی اور کیٹیون، جو اہم تجارتی مراکز بن گئے۔ قبرص اپنی کانوں کے لیے بھی جانا جاتا تھا، جو اس کی اقتصادی ترقی اور تجارت میں معاون ثابت ہوا۔

کلاسیکی اور ہیلینسٹک دور

9 ویں صدی قبل مسیح میں قبرص فنیقیوں کے اثر و رسوخ میں آ گیا، جنہوں نے جزیرے پر شہر ریاستیں قائم کیں، جیسے بیبلوس اور صور۔ 6 ویں صدی قبل مسیح میں قبرص آپریشنز سے فتح ہوا، اور بعد میں یہ سکندر مقدونی کی مقدونی سلطنت کا حصہ بن گیا۔ سکندر کی وفات کے بعد قبرص بطلیموسی سلطنت کے کنٹرول میں آ گیا، جو جزیرے پر 332 سال قبل مسیح سے لے کر 30 سال قبل مسیح تک حکمرانی کرتی رہی۔

اس دور میں قبرص ترقی پذیر ہوا، اور بہت سی ثقافتی اور تعمیراتی کامیابیاں یونانی اثر و رسوخ سے وابستہ رہیں۔ جزیرے پر یونانی روایات کی عکاسی کرنے والے معبد، تھیٹر اور دیگر عمارتیں تعمیر کی گئیں۔ آخر کار، قبرص 30 سال قبل مسیح میں رومی سلطنت کا حصہ بن گیا، جس سے اقتصادی اور ثقافتی خوشحالی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔

رومی اور بازنطینی دور

قبرص پر رومی حکمرانی 395 عیسوی تک رہی، جب جزیرہ بازنطینی سلطنت کا حصہ بن گیا۔ بازنطینی دور کو عیسائیت کی مضبوطی اور مذہبی فن کی توسیع کے لیے جانا جاتا ہے۔ بہت سی گرجا گھر اور خانقاہیں تعمیر کی گئیں، جو آج بھی اپنی خوبصورتی برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

اس دور میں قبرص عربوں اور دوسرے لوگوں کے حملوں کا سامنا کرتا رہا، جس کی وجہ سے جزیرے پر عدم استحکام پیدا ہوا۔ تاہم بازنطینی سلطنت نے 1191 تک قبرص پر کنٹرول برقرار رکھا، جب جزیرہ صلیبیوں کے ہاتھوں تیسری صلیبی جنگ کے دوران فتح ہو گیا۔

فرانسوی اور وینیٹین حکمرانی

صلیبیوں کی فتح کے بعد، قبرص یروشلم کی بادشاہی کا حصہ بن گیا اور کئی خاندانوں کے کنٹرول میں رہا، جن میں لوزینیان شامل ہیں۔ اس نے قلعوں اور دیواروں کی تعمیر جیسے اہم ثقافتی تبدیلیوں کا باعث بنی۔

1489 میں قبرص وینیٹینوں کے حوالے کر دیا گیا، جو مشرقی بحیرہ روم میں اپنی حیثیت کو مضبوط بنانا چاہتے تھے۔ وینیٹینوں نے نئے قلعے اور بندرگاہیں تعمیر کیں، جس سے جزیرہ ایک اہم تجارتی مرکز بن گیا۔ تاہم ان کی حکومت بھی بغیر چیلنجز نہیں تھی، اور قبرص مسلسل عثمانی سلطنت کے حملوں کا شکار رہا۔

عثمانی حکمرانی

1571 میں قبرص عثمانی سلطنت کے زیر قبضہ آ گیا، جو تقریباً تین سو سالہ عثمانی حکمرانی کا آغاز تھا۔ اس دوران جزیرے پر سماجی اور اقتصادی ڈھانچے میں معنی خیز تبدیلیاں آئیں، جن میں مسلم آبادی کا انضمام شامل ہے۔ عثمانیوں نے اپنے قوانین اور انتظامی نظام کو نافذ کیا، جس سے قبرصیوں کی زندگی میں تبدیلی آئی۔

مشکلات کے باوجود، عثمانی دور نے ثقافتی تبادلے میں بھی اضافہ کیا۔ مقامی لوگوں نے اپنی روایات اور رسومات کو برقرار رکھنے میں کامیابی حاصل کی، جس سے ایک منفرد ثقافتی شناخت کی تشکیل ہوئی۔

برطانوی نوآبادیاتی حکمرانی

1878 میں، عثمانی سلطنت کے ساتھ ایک خفیہ معاہدے کے نتیجے میں، قبرص کو برطانیہ کے حوالے کر دیا گیا۔ برطانوی حکمرانی نے سماجی اور اقتصادی شعبوں میں اہم تبدیلیاں لائیں۔ برطانویوں نے بنیادی ڈھانچے کو جدید بنایا، سڑکوں، اسکولوں اور اسپتالوں کی تعمیر کی۔

تاہم، نوآبادیاتی حکمرانی نے مقامی آبادی کے درمیان عدم اطمینان بھی پیدا کیا۔ 20 ویں صدی کے آغاز میں قومی تحریکیں سامنے آئیں، جو آزادی کی خواہاں تھیں۔ قبرص پر یونانی اور ترک آبادی کے درمیان تناؤ کے ساتھ، تنازعات بڑھتے گئے۔

آزادی کے لیے جدوجہد

1955 میں قبرص کی آزادی کے لیے بھرپور جدوجہد شروع ہوئی۔ ای او کے اے (قبرصی آزادی کے لڑاکوں کی قومی تنظیم) نے برطانوی حکام کے خلاف مسلح کارروائیاں کیں، تاکہ قبرص کو یونان کے ساتھ ملا سکیں۔ تنازعات نے انسانی جانوں کی قربانی اور تباہی کا سبب بنایا۔

1960 میں، طویل مذاکرات کے بعد قبرص نے آزادی حاصل کی اور ایک جمہوریہ بن گیا۔ صدر آرچ بشپ ماکریوس III بنے، جنہوں نے یونانی اور ترک قبرصیوں کے درمیان اتحاد کو مضبوط بنانے کی کوشش کی۔ تاہم، اندرونی تنازعات اور نسلی گروہوں کے درمیان کشیدگی جلد ہی خانہ جنگی کا باعث بنی۔

قبرص کی تقسیم

1974 میں ایک فوجی بغاوت ہوئی، جس کی حمایت یونان نے کی، جس کے نتیجے میں ترکی کی مداخلت اور جزیرے کے شمالی حصے کی قبضہ داری ہوئی۔ اس کے نتیجے میں قبرص دو حصوں میں تقسیم ہو گیا: جنوبی حصہ، جو یونانی قبرصیوں کے کنٹرول میں ہے، اور شمالی حصہ، جو ترک قبرصیوں کے تحت ہے۔

یہ تقسیم مہاجرین کی بڑی تعداد اور طویل المدتی سیاسی تنازعات کا باعث بنی۔ جزیرے کے اتحاد کے لیے بین الاقوامی کوششیں ابھی تک جاری ہیں، لیکن سیاسی صورت حال اب بھی پیچیدہ ہے۔

جدید قبرص

پچھلی چند دہائیوں میں قبرص اقتصادی ترقی اور بین الاقوامی حیثیت کو مضبوط بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ 2004 میں قبرص یورپی یونین کا رکن بنا، جس سے معیشت اور سماجی زندگی میں اہم تبدیلیاں آئیں۔

تاہم، جزیرے کی دوبارہ اتحاد کا مسئلہ اب بھی موجود ہے۔ یونانی اور ترک قبرصیوں کے درمیان دوری مذاکرات اور بین الاقوامی ثالثوں کے ساتھ جاری ہیں، حالانکہ آخری معاہدہ ابھی تک حاصل نہیں ہوا ہے۔ ان چیلنجز کے باوجود، قبرص اپنے قدرتی حسن، امیر تاریخ اور ثقافتی ورثے کی وجہ سے ایک دلکش سیاحتی مقام ہے۔

نتیجہ

قبرص کی تاریخ ایک پیچیدہ اور متنوع عمل ہے، جو واقعات اور تبدیلیوں سے بھرا ہوا ہے۔ جزیرہ، جو صدیوں سے تاریخی تنازعات اور ثقافتی تبادلوں کے مرکز میں رہا ہے، بعض چیلنجز کے باوجود ترقی کرتا رہتا ہے۔ مختلف تہذیبوں کے اثرات سے تشکیل یافتہ قبرص کا منفرد ثقافتی ورثہ دنیا بھر کے محققین اور سیاحوں کی توجہ کو متوجہ کرتا ہے۔

بانٹنا:

Facebook Twitter LinkedIn WhatsApp Telegram Reddit email

مزید معلومات: