رومی اور بازنطینی دور قبرص میں عیسوی सَن کے پہلے صدی سے لے کر پندرھویں صدی عیسوی کے آخر تک کا زمانہ شامل ہے۔ یہ تاریخی دور جزیرے کی ثقافتی، سیاسی، اور مذہبی شناخت کی تشکیل کے لیے ایک اہم دور تھا۔ رومی تسلط اور بعد میں بازنطینی سلطنت میں شامل ہونا قبرص کی زندگی پر خاطر خواہ اثر ڈالنے والا تھا، جس نے اقتصادی خوشحالی، ثقافتی تبادلے، اور مذہبی تبدیلیوں کی راہ ہموار کی۔
30 قبل مسیح میں قبرص رومی صوبہ بن گیا جب اسے کلیوپیٹرہ ساتم اور مارک انتونی نے فتح کیا۔ رومی حکومت نے جزیرے کی خوشحالی کے لیے استحکام اور ترقی فراہم کی۔ رومیوں نے بنیادی ڈھانچے کی ترقی پر زور دیا، سڑکیں، پانی کی نالیاں اور دیگر عوامی عمارتیں جیسے تھیٹر اور مندریں تعمیر کیں۔
رومی دور کی ایک اہم کامیابی سڑکوں کی تعمیر تھی، جو جزیرے کے اہم شہروں جیسے سالامین، پافوس اور کیتیون کو جوڑتی تھی۔ یہ سڑک تجارت اور ثقافتی تبادلہ کی ترقی میں مددگار ثابت ہوئی۔ رومی اپنے ساتھ اپنے قوانین اور انتظامی طریقوں کو بھی لائے، جس کے نتیجے میں انتظامیہ کے نظام میں بہتری آئی اور ٹیکس کی آمدنی میں اضافہ ہوا۔
قبرص مشرقی بحیرہ روم میں ایک اہم تجارتی مرکز بن گیا، جہاں زیتون کا تیل، شراب اور کپڑے جیسے سامان کی کثرت سے تجارت ہوتی تھی۔ اس وقت جزیرے پر ثقافت کا عروج دیکھا گیا، اور یونانی زبان تعلیم اور ادب میں غالب زبان بن گئی۔
قبرص میں رومی دور ثقافتی عروج کا دور تھا۔ فن اور تعمیرات نے نئی بلندیوں کو چھوا۔ جزیرے پر شاندار ولاز بنائی گئیں جن میں مائوزیک شامل تھے، جو افسانوی اور روزمرہ کی مناظر کی عکاسی کرتا تھے۔ پافوس میں مائوزیک خاص طور پر مشہور ہیں، جو رومی فن کی مہارت کی مثال ہیں۔
رومیوں نے تھیٹروں اور کھیلوں کی سہولیات کو بھی فروغ دیا، جو عوامی زندگی کے مراکز بن گئے۔ سب سے مشہور تھیٹروں میں سے ایک سالامین کا تھیٹر ہے، جو 15,000 ناظرين تک کی گنجائش رکھتا تھا اور ڈراموں اور کھیلوں کے مقابلے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔
330 عیسوی میں قبرص بازنطینی سلطنت کا حصہ بن گیا جب رومی سلطنت کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ یہ دور 1571 تک جاری رہا اور اس میں اہم سیاسی، ثقافتی اور مذہبی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں۔ بازنطینی حکمرانی نے جزیرے کی زندگی میں نئے عناصر کو متعارف کرایا، بشمول عیسائیت، جو غالب مذہب بن گیا۔
بازنطینی دور میں قبرص عیسائیت کا ایک اہم مرکز بن گیا۔ جزیرے پر متعدد چرچ اور خانقاہیں بنائی گئیں، جو روحانی زندگی کے مراکز تھیں۔ کچھ مشہور چرچ، جیسے نیکوسیا میں سینٹ سوفیا کا چرچ اور لارنکا میں سینٹ لازر کا چرچ، بازنطینی تعمیرات کی علامت بن گئے۔
قبرص میں بازنطینی ثقافت نے یونانی اور مشرقی ثقافت کے عناصر کو یکجا کیا۔ فن اور ادب ترقی پذیر رہے، اور بہت سے بازنطینی فنکار اور لکھاری قبرص میں کام کرتے رہے۔ اس وقت کتابوں کے کام میں ترقی آئی، اور بہت سے خطی نسخے، جو یونانی زبان میں لکھے گئے، تخلیق اور نقل کیے گئے۔
اس دور کی ایک معروف ثقافتی کامیابی آئیکون کی تخلیق ہے۔ بازنطینی آئیکون نگاروں نے بہت سے فن پارے تخلیق کیے، جو قبرص میں مذہبی زندگی کے اہم عناصر بن گئے۔ یہ آئیکون نہ صرف عبادت کے سامان تھے، بلکہ فن کی اعلیٰ معیار کی عکاسی بھی کرتے تھے۔
بازنطینی دور میں قبرص کی سیاسی زندگی کافی پیچیدہ تھی۔ جزیرہ عربوں کے حملوں کا نشانہ بنتا رہا، جس کی وجہ سے عدم استحکام پیدا ہوا۔ بازنطینی حکام نے بیرونی خطرات سے جزیرے کی حفاظت کے لیے دفاع کو مضبوط کرنے، قلعے اور مستحکم بنانے پر مجبور کیا۔
نویں صدی میں قبرص عرب خلیفہ کے مفادات کا موضوع بن گیا، جنہوں نے جزیرے کو فتح کرنے کی کئی کوششیں کیں۔ تاہم، ان خطرات کے باوجود، بازنطینی سلطنت نے قبرص پر کنٹرول برقرار رکھا، حالانکہ کبھی کبھی جزیرہ عارضی طور پر قبضہ میں لیا گیا۔
بازنطینی دور قبرص کے لیے اقتصادی خوشحالی کا دور تھا۔ جزیرہ تجارت کا ایک اہم مرکز بن گیا، جو کہ یورپ اور ایشیا کے درمیان اس کی اسٹریٹجک مقام کی بدولت ممکن ہوا۔ زیتون کے تیل، شراب، اناج اور کپڑوں کی تجارت بڑی سطح پر ہوئی، اور قبرص مشرقی بحیرہ روم میں بین الاقوامی تجارت کا اہم شریک رہا۔
اس وقت جزیرے پر زراعت میں بھی ترقی ہوئی۔ بازنطینیوں نے نئے زراعتی ٹیکنالوجی اور طریقوں کو متعارف کرایا، جس سے پیداوار میں اضافہ ہوا۔ زیتون کے باغات اور انگور کے کھیتیں مقامی لوگوں کے لیے آمدنی کے اہم ذرائع بن گئے۔
قبرص میں رومی اور بازنطینی دور جزیرے اور اس کی ثقافت کی مزید ترقی کی بنیاد بن گئے۔ رومی انتظامیہ اور بازنطینی مذہب کے اثرات نے قبرصی لوگوں کی زندگی پر خاطر خواہ اثر ڈالا، ان کی شناخت اور ثقافتی ورثے کی تشکیل کی۔ ان دوروں نے اپنی پیچھے ایک عظیم ثقافتی ورثہ چھوڑا، جو موجودہ نسلوں کو متاثر کرتا رہتا ہے۔