قبرص کی آزادی کی جدوجہد ایک پیچیدہ اور کئی پہلوؤں کی حامل عمل ہے، جو کہ کئی دہائیوں پر محیط ہے اور اس میں سیاسی اور سماجی پہلو شامل ہیں۔ 1878 میں برطانوی نوآبادیاتی حکومت کے آغاز سے لے کر 1960 میں آزادی حاصل کرنے تک، قبرصی، خاص طور پر قبرصی یونانی، اپنے حقوق اور خود حکمرانی کے لیے فعال طور پر لڑتے رہے۔ یہ مضمون اس جدوجہد سے متعلق کلیدی مراحل اور واقعات کا جائزہ لے گا، نیز آزادی حاصل کرنے کے عمل پر مختلف عوامل کے اثرات۔
قبرص عثمانی حکمرانی میں 1571 سے 1878 تک رہا، جب یہ برطانیہ کے حوالے کیا گیا۔ ابتدائی طور پر جزیرہ رسمی طور پر عثمانی خود مختاری کے تحت تھا، لیکن حقیقت میں اسے برطانویوں نے کنٹرول کیا۔ یہ مختلف نسلی گروہوں کے درمیان تناؤ کا باعث بنا، خاص طور پر قبرصی یونانی اور قبرصی ترکی کے درمیان۔ آزادی کی جدوجہد کی بنیادی وجہ یونان کے ساتھ اتحاد کا خواب تھا، جسے "اینوسی" (اتحاد) کہا جاتا ہے۔
20 ویں صدی کے آغاز میں قبرصی خود حکمرانی اور ملی شناخت کی ضرورت کو سمجھنے لگے۔ تعلیمی ادارے اور ثقافتی تحریکیں قومی شعور کی تشکیل میں معاون ثابت ہوئیں۔ اس میں ایک اہم عنصر یونانی ثقافت اور زبان کا پھیلاؤ تھا۔ سیاسی جماعتوں اور تنظیموں جیسے "فلپینی" اور "قبرسی جمہوری اتحاد" کا قیام بھی قبرصی معاشرے کے انضمام کے عمل میں اہم کردار ادا کیا۔
1931 میں ایک بغاوت نے جنم لیا، جسے "1931 کی بغاوت" کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ قبرصی یونانیوں کے برطانوی انتظامیہ کی پالیسیوں اور معاشی مشکلات کے خلاف عدم اطمینان کی وجہ سے شروع ہوئی۔ مقامی آبادی زندگی کی حالتوں کی خرابی اور سیاسی حقوق کے فقدان سے نالاں تھی۔ بغاوت کو عسکری قوتوں کی مدد سے دبا دیا گیا، لیکن اس نے قبرصیوں کی اپنے حقوق کے لیے لڑنے کی عزم کو ظاہر کیا۔ یہ واقعہ آزادی کی جدوجہد کی تاریخ میں ایک اہم لمحہ بن گیا، جس نے یونان کے ساتھ اتحاد کے خیال کو بڑھایا۔
دوسری عالمی جنگ نے قبرص پر اہم اثر ڈالا۔ جنگ کے دوران جزیرہ برطانوی فوجوں کے لیے ایک اہم اڈہ بن گیا۔ تاہم، جنگ نے اقتصادی مشکلات اور خوراک کی کمی بھی پیدا کی، جس نے مقامی آبادی کی بے چینی میں اضافہ کر دیا۔ جنگ کے بعد، قبرصی یونانیوں نے قومی آزادی کی تحریک منظم کرنا شروع کی۔
1945 میں ای او کے اے (قبرصی آزادی کے متوازی کی قومی تنظیم) کی تشکیل عمل میں آئی، جس کا مقصد جزیرے کو برطانوی نوآبادیاتی حکومت سے آزاد کروانا اور یونان کے ساتھ ملحق ہونا تھا۔ ای او کے اے نے برطانوی حکومت کے خلاف گوریلا جنگ شروع کی، جس نے جزیرے پر تشدد میں اضافہ کر دیا۔
1955 میں ای او کے اے نے برطانوی فوجی اور پولیس کی قوتوں، اور ان لوگوں پر جو نوآبادیاتی انتظامیہ سے وابستہ تھے، حملے شروع کیے۔ اس کے ساتھ ساتھ جزیرے پر قبرصی یونانیوں اور قبرصی ترکوں کے درمیان تشدد میں اضافہ ہوا۔ برطانوی حکومت نے اس پر سخت اقدامات اپنائے، جن میں گرفتاریاں اور دباؤ شامل تھے۔ ان اقدامات نے صورتحال کو مزید خراب کر دیا، جس نے مزید تنازعات اور تناؤ میں اضافہ کیا۔
قبرص کی آزادی کی جدوجہد کے دوران جزیرے کی صورتحال پر بین الاقوامی توجہ بڑھ گئی۔ 1954 میں یونان نے قبرص کا مسئلہ اقوام متحدہ میں اٹھایا، جس نے عالمی برادری کو صورتحال کا جائزہ لینے کا موقع فراہم کیا۔ قبرصیوں کی کوششوں کے باوجود، اقوام متحدہ نے تنازع کے حل کے لیے کوئی مخصوص اقدامات نہیں کیے۔
تاہم، برطانیہ پر بین الاقوامی دباؤ بڑھتا گیا۔ مختلف ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں نے قبرصیوں اور ان کی آزادی کی خواہش کی حمایت کرنا شروع کیا۔ یہ بین الاقوامی توجہ قبرص کے حوالے سے برطانوی حکام کے فیصلوں کو متاثر کرنے والا ایک اہم عنصر بن گئی۔
بڑھتے ہوئے دباؤ اور جاری تنازعات کے نتیجے میں، برطانیہ نے قبرص کو آزادی دینے کے ممکنہ امکانات پر غور شروع کیا۔ 1960 میں لندن کا معاہدہ طے پایا، جس کے تحت قبرص کو ایک آزاد ریاست بنانے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ اس معاہدے کے مطابق قبرص کو آزادی ملی، اور برطانیہ، ترکی اور یونان نئی ریاست کی سلامتی کے ضامن بن گئے۔
قبرص کا نیا درجہ ایک آئین کے تحت طے کیا گیا، جس میں قبرصی یونانیوں اور قبرصی ترکوں کے درمیان طاقت کی تقسیم کا ذکر تھا۔ تاہم، معاہدے پر دستخط کے باوجود، دونوں نسلی گروہوں کے درمیان تناؤ کم نہ ہوا اور یہ بڑھتا رہا۔
قبرص کی آزادی کی جدوجہد ایک پیچیدہ اور کثیر جہتی عمل ہے، جو لوگوں کی آزادی اور خود حکمرانی کی خواہش کی علامت ہے۔ یہ تاریخی، سیاسی اور سماجی عوامل سے متاثر ہوا، جو کہ قبرصیوں کی جدید شناخت کو بڑی حد تک تشکیل دیتے ہیں۔ اگرچہ قبرص نے 1960 میں آزادی حاصل کی، آزادی کی جدوجہد کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل آج بھی موجود ہیں، اور قبرصی کمیونٹیز کے درمیان اتحاد اور پرامن بقائے باہمی کا مسئلہ ابھی بھی حل طلب ہے۔