خمیر سلطنت، جسے خمیر کے سلطنت کے طور پر بھی جانا جاتا ہے، جنوبی مشرقی ایشیا کی ایک عظیم اور سب سے بااثر تہذیبوں میں سے تھی، جو IX سے XV صدیوں تک وجود میں رہی۔ یہ سلطنت موجودہ کمبوڈیا کی سرزمین پر پھیلی ہوئی تھی، اور اس نے لاؤس، تھائی لینڈ اور ویت نام کے کچھ علاقوں کو بھی متاثر کیا۔ خمیر سلطنت اپنے شاندار ثقافتی اور تعمیراتی ورثے کے لئے مشہور ہے، جس میں معروف اینگکور واٹ کا مندر شامل ہے، جو عالمی تعمیرات کی سب سے مشہور اور محفوظ یادگاروں میں سے ایک ہے۔
خمیر سلطنت کی تاریخی جڑیں پہلے کے ریاستی تشکیلوں کی طرف جاتی ہیں، جیسے فُنان اور چھنلا، جو I–VIII صدیوں میں اس علاقے میں موجود تھیں۔ یہ ریاستیں زراعت اور تجارت پر قائم تھیں، اور ان کی ثقافت اور مذہب بھارت کے اثرات کے زیر اثر تھیں، جو فن، تعمیرات اور فلسفے میں ظاہر ہوتا تھا۔
خمیر سلطنت کی تشکیل کے ساتھ، IX صدی میں بادشاہ جاویارمن II کی قیادت میں مختلف قبائل اور قبائلی اتحادوں کا اتحاد ہوا، جس نے اس علاقے کی تاریخ میں ایک نئی دور کا آغاز کیا۔ بادشاہ نے خود کو ایک الہی حکمران اعلان کیا اور ایک عقیدت قائم کی جو قوم کی یکجہتی اور مذہبی عبادت کی علامت تھی۔
خمیر سلطنت نے بادشاہ جاویارمن VII (1181–1218) کے دور حکومت میں اپنے عروج کو حاصل کیا، جو بڑے پیمانے پر تعمیراتی منصوبوں اور اصلاحات کے لئے جانے جاتے ہیں۔ اس دوران مندر اور شہروں کی تعمیر میں تیزی آئی، اور دیگر ریاستوں کے ساتھ تجارتی تعلقات بھی بڑھنے لگے۔
انگکور، سلطنت کا دارالحکومت، اپنے زمانے کے سب سے بڑے شہروں میں سے ایک بن گیا۔ انگکور کا مندر، بشمول انگکور واٹ اور بایون، اعلی معیار کے مواد اور جدید تعمیراتی حل کے استعمال سے تعمیر کیا گیا۔ یہ مندروں نہ صرف مذہبی مراکز تھے بلکہ خمیر حکمرانوں کی طاقت کی علامت بھی بن گئے۔
خمیر ثقافت ہندو مت اور بدھ مت میں گہری جڑیں رکھتی تھی، جس نے فن، ادب اور فلسفے پر نمایاں اثر ڈالا۔ اس دوران ایک منفرد تعمیراتی، مجسمہ سازی اور پینٹنگ کا ارتقاء ہوا۔ مندروں کو شاندار بیلے ریلیفز سے مزین کیا گیا، جو کہ افسانوی مناظر، تاریخی واقعات اور روزمرہ زندگی کی عکاسی کرتے تھے۔
خمیر کے مذہبی اعمال اور عقائد ان کے فن میں عکاسی پاتے تھے۔ بھارتی مہاکاوی، جیسے "رامائن" اور "مہابھارت"، خمیر فنکاروں اور مجسمہ سازوں کے لئے اہم ترغیب کے ذرائع بن گئے۔ اس دور میں تعمیر کردہ مندروں نے عبادت کے مقامات اور ثقافتی زندگی کے مراکز کی حیثیت رکھی۔
کامیابیوں کے باوجود، خمیر سلطنت نے کئی مسائل کا سامنا کیا، جس کی وجہ سے اس کا زوال ہوا۔ XIV صدی میں داخلی تنازعات شروع ہوئے، اور ساتھ ہی پڑوسی ریاستوں، جیسے سِیام اور ویت نام سے دباؤ میں اضافہ ہوا۔ یہ بیرونی خطرات، موسمی تبدیلیوں اور اقتصادی مشکلات کے ساتھ، سلطنت کی کمزوری کا باعث بنے۔
XV صدی کے آخر تک خمیر سلطنت نے آہستہ آہستہ اپنی سیاسی طاقت کھو دی، اور اس کی سرزمین دوسری ریاستوں میں تقسیم ہوگئی۔ دارالحکومت انگکور چھوڑ دیا گیا، اور سلطنت مکمل طور پر زوال پذیر ہو گئی۔ البتہ، خمیر کا ثقافتی ورثہ اور تعمیراتی کامیابیاں جنوبی مشرقی ایشیا کے علاقوں پر صدیوں تک اثر انداز ہوتی رہیں۔
خمیر سلطنت کے زوال کے باوجود، اس کا ثقافتی ورثہ آج بھی زندہ ہے۔ انگکور واٹ کا مندر UNESCO کے عالمی ورثہ کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے اور یہ دنیا بھر سے لاکھوں سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتا ہے۔ محققین اور ماہرین آثار قدیمہ قدیم خمیر تہذیب کے باقیات کا مطالعہ جاری رکھتے ہیں، جو اس کے رازوں کو کھولنے اور علاقے کی ثقافتی روایات کی تفہیم کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
عصری خمیر اپنے ورثے پر فخر کرتے ہیں، اور حالیہ دہائیوں میں کمبوڈیا میں ثقافتی ورثے کے مقامات کی بحالی اور حفاظت کے منصوبے بھرپور طریقے سے جاری ہیں۔ خمیر سلطنت جنوبی مشرقی ایشیا کی تاریخ کا ایک اہم حصہ بنی ہوئی ہے، اور اس کا اثر آج کے معاشرے میں محسوس ہوتا ہے۔
خمیر سلطنت ایک شاندار ثقافتی اور تاریخی عروج کی مثال پیش کرتی ہے، جس نے جنوبی مشرقی ایشیا کی ترقی پر نمایاں اثر ڈالا۔ اس کی کامیابیاں فن، تعمیرات اور مذہب میں لوگوں کو متاثر کرتی رہتی ہیں، اور اس کی تاریخ کا مطالعہ اس علاقے کے بھرپور ورثے کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔