بھارت کے ریاستی نظام کی تاریخ ایک طویل اور پیچیدہ عمل ہے، جو کئی دوروں اور سیاسی نظاموں کا احاطہ کرتا ہے۔ بھارتی ذیلی براعظم پر پہلی تہذیبوں کے ابھار سے لے کر جدید جمہوری ریاست تک، بھارتی سیاسی نظام میں خاطر خواہ تبدیلیاں آئی ہیں۔ اس مضمون میں ہم بھارتی ریاستی نظام کی ترقی کے اہم مراحل کا جائزہ لیں گے، قدیم ادوار سے لے کر جدید حقیقتوں تک۔
بھارتی تہذیب کی جڑیں گہری ہیں، جو ہندو-آریائی ثقافت اور پہلے شہروں، جیسے حَرَپّا اور موہنجو داڑو تک پہنچتی ہیں۔ یہ شہر، جو تقریباً 2500 قبل مسیح میں وجود رکھتے تھے، اعلیٰ تنظیم اور انتظامی حکمت عملی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
وقت کے ساتھ، ان تہذیبوں کی جگہ مختلف ریاستوں اور سلطنتوں نے لی، جیسے موریہ اور گپتا۔ ان بادشاہتوں میں، جو نسلی حکمرانی پر مبنی تھیں، طاقت بادشاہوں کے ہاتھوں میں مرکوز تھی، جو حکام اور فوج کے ذریعے حکمرانی کرتے تھے۔ ان ریاستوں کے قوانین اور انتظامی طریقے بھارتی سیاسی نظام کی بعد کی ترقی پر اثر انداز ہوئے۔
نوآبادیاتی توسیع کے آغاز کے ساتھ، خاص طور پر 18ویں صدی میں برطانوی فتح کے ساتھ، سیاسی نظام میں بڑی تبدیلیاں آئیں۔ برطانویوں نے اپنے انتظامی ڈھانچے اور قانون سازی کے اصول متعارف کرائے، جس کی وجہ سے روایتی نظاموں کو نوآبادیاتی نظاموں سے بدلنے کا عمل شروع ہوا۔
اس وقت آزادی کے لیے ایک فعال تحریک کا آغاز ہوا، جو مختلف طبقات کو متحد کرتی تھی۔ سیاسی رہنما، جیسے مہاتما گاندھی اور جواہر لال نہرو، سیاسی حقوق اور خودمختاری کا مطالبہ کرنے لگے۔ یہ وہ دور تھا جب جمہوریت اور آزادی کے تصورات ابھرے۔
آزادی کی طویل جدوجہد کے بعد، بھارت نے 15 اگست 1947 کو آزادی حاصل کی۔ 1950 میں آئین کی منظوری جمہوری ریاست کی تشکیل میں ایک اہم لمحہ تھا۔ آئین نے بھارت کو ایک خود مختار سوشلسٹ جمہوری رپبلک قرار دیا، جس نے شہریوں کے حقوق اور آزادیوں کی ضمانت دی۔
آئین کی رو سے، بھارت ایک وفاقی ریاست بن گیا ہے جس میں کئی سطحی انتظامی نظام شامل ہیں، جن میں مرکزی اور مقامی حکومت شامل ہیں۔ اس نے مختلف علاقوں کو حکمرانی میں حصہ لینے کی اجازت دی، جو مختلف کمیونٹیوں کے مفادات کی بہتر نمائندگی کی طرف لے گئی۔
بھارت کا جدید ریاستی نظام جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور سیکولرازم کے اصولوں پر مبنی ہے۔ سیاسی نظام میں تین شاخیں شامل ہیں: عملی، قانون سازی اور عدلیہ۔ صدر ریاست کے سربراہ ہوتے ہیں، جبکہ وزیر اعظم حکومت کی سربراہی کرتا ہے۔
بھارتی پارلیمنٹ دو ایوانوں پر مشتمل ہے: لوک سبھا (نچلا ایوان) اور راجیہ سبھا (اوپر ایوان)۔ یہ ایک توازن اور چیک کے نظام کو فراہم کرتا ہے اور مختلف سیاسی جماعتوں کو ملک کی حکمرانی میں شرکت کی اجازت دیتا ہے۔
بھارت میں جماعتی نظام کثیر جماعتی ہے، جو مختلف سیاسی قوتوں کو مختلف آبادی کے گروہوں کی نمائندگی کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ انتخابات باقاعدگی سے منعقد ہوتے ہیں، اور شہریوں کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہوتا ہے، جو جمہوریت کو زیادہ مستحکم بناتا ہے۔
کامیابیوں کے باوجود، بھارتی ریاستی نظام کئی مسائل اور چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے۔ بدعنوانی، سماجی عدم مساوات، مذہبی تنازعات اور انسانی حقوق کے مسائل - یہ سب استحکام اور ترقی کے لیے سنگین خطرات کی شکل میں موجود ہیں۔
آخری چند سالوں میں بھی عوامیت اور قومی سوچ میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے، جو بنیادی جمہوری اصولوں کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ تاہم، بھارتی معاشرہ سیاسی عمل میں سرگرم ہے اور تبدیلی کی کوشش کر رہا ہے۔
بھارت کے ریاستی نظام کی ترقی ایک پیچیدہ اور کثیر الجہتی عمل ہے، جو ملک کی امیر تاریخ کی عکاسی کرتا ہے۔ قدیم بادشاہتوں سے لے کر جدید جمہوری ریاست تک، بھارت نے ایک طویل سفر طے کیا ہے۔ موجودہ چیلنجز کے باوجود، بھارتی سیاسی نظام ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور معاشرے کی ضروریات اور حالات کے مطابق ڈھل رہا ہے۔