بھارت کی قومی علامتیں ملک کی صدیوں پرانی تاریخ اور ثقافتی ورثے کی عکاسی کرتی ہیں۔ ایسے علامتیں، جیسے کہ جھنڈا، نشان اور قومی ترانہ، بھارتی ثقافت کی انفرادیت اور تنوع کو مدنظر رکھ کر تخلیق کی گئی تھیں۔ یہ علامتیں شہریوں کے درمیان قومی شناخت اور حب الوطنی کو تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
بھارت کا جھنڈا، جسے "تری کلاور" کہا جاتا ہے، 22 جولائی 1947 کو منظور کیا گیا، جو کہ ملک کی برطانوی نوآبادیاتی حکومت سے آزادی حاصل کرنے سے چند دن پہلے تھا۔ یہ جھنڈا تین افقی دھاریوں پر مشتمل ہے: نارنجی (اوپر)، سفید (درمیان) اور سبز (نیچے)۔ نارنجی دھاری جرت اور قربانی کی علامت ہے، سفید دھاری امن اور سچائی کی، جبکہ سبز دھاری ایمان اور زرخیزی کی عکاسی کرتی ہے۔ اس کی سفید دھاری کے مرکز میں نیلا پہیہ "دھرم چکر" ہے - جو کہ قانون کا پہیہ ہے، جو انصاف اور آگے بڑھنے کی علامت ہے۔
بھارت کا نشان 1950 میں منظور کیا گیا اور یہ "سَپت پدم" - اشوکا کا شیر جو طاقت اور اقتدار کی علامت ہے، کی بنیاد پر ہے۔ نشان میں چار شیر ہیں، جو ایک گول بنیاد پر کھڑے ہیں، جس کے مرکز میں "دھرم چکر" کی تصویر ہے۔ شیر کے نیچے دو ڈھالیں ہیں جن میں کمل اور پروں کی تصاویر ہیں۔ نشان کے نیچے ایک عبارت ہے "سَتیمیو جائتے"، جس کا مطلب ہے "سچ ہمیشہ جیتتا ہے"۔ یہ نشان نہ صرف بھارت کے تاریخی ورثے کی عکاسی کرتا ہے بلکہ انصاف اور سچائی کی طرف اس کی کوششوں کی بھی علامت ہے۔
بھارت کا قومی ترانہ، "جان گن مان"، 1911 میں رابندرا ناتھ ٹیگور نے لکھا تھا اور 1950 میں قومی ترانے کے طور پر منظور کیا گیا۔ یہ ترانہ بھارتی زمین اور اس کے لوگوں کی اتحاد، تنوع اور خوبصورتی کو بیان کرتا ہے۔ اس میں ایسے اشعار ہیں جو آزادی اور قوم کی فخر کی تعریف کرتے ہیں۔ ترانے کی موسیقی اور متن بھارتی ثقافت کے روح کو اور اس کے تنوع کے درمیان اتحاد کی خواہش کی عکاسی کرتے ہیں۔
قومی علامتیں قومی شعور اور شناخت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ علامتیں شہریوں کو ان کی تاریخ، ثقافت اور اقدار کی یاد دلاتی ہیں۔ یہ بہت سے بھارتیوں کے لیے فخر اور تحریک کا ذریعہ ہیں۔ جھنڈا، نشان اور ترانہ سرکاری تقریبات، تعلیمی پروگراموں اور تقریبات میں فعال طور پر استعمال کیے جاتے ہیں، جیسے کہ یوم آزادی اور یوم جمہوریہ، جو کہ روزمرہ کی زندگی میں ان علامتوں کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔
آزادی حاصل کرنے کے بعد 1947 میں بھارت نے اپنی قومی علامتوں کی ترقی شروع کی۔ اس عمل میں ایک اہم قدم 1950 میں آئین کا قیام تھا، جس نے نہ صرف حکومت کی ساخت کو طے کیا بلکہ بھارتی قوم کی بنیاد پر موجود بنیادی اصولوں کی بھی وضاحت کی۔ آئین نے نئے علامتوں اور ان کے معنی کی تشکیل کی بنیاد فراہم کی، جو جمہوری اقدار اور بھارتی معاشرے کی تنوع کی عکاسی کرتا ہے۔
ماضی کے دہائیوں میں بھارت میں قومی علامتوں کے حوالے سے مباحثے اور تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔ کچھ گروہ موجودہ حقائق اور سماجی ثقافتی تبدیلیوں کی روشنی میں علامتوں کے تبدیلی یا ان کی تشریح کا مطالبت کرتے ہیں۔ اس میں جھنڈے، نشان اور ترانہ شامل ہیں، جو اس بات پر متحرک مباحثے کو جنم دیتے ہیں کہ جدید بھارت اور اس کی تنوع کو کس طرح بہتر طریقے سے پیش کیا جا سکتا ہے۔ یہ مباحثے اس بات کو سمجھنے کے لیے اہم ہیں کہ علامتیں کیسے معاشرت کے ساتھ ترقی کر سکتی ہیں۔
بھارت کی قومی علامتوں کی تاریخ اس کی دولت مند ثقافت اور تنوع کی عکاسی کرتی ہے۔ جھنڈا، نشان اور قومی ترانہ نہ صرف ملک کی آزادی اور اتحاد کی علامتیں ہیں بلکہ بھارتیوں کی انصاف اور امن کی طرف خواہشات کی بھی نمائندگی کرتی ہیں۔ علامتیں ترقی پذیر اور ایڈجسٹ ہوتی رہتی ہیں، جبکہ تاریخ سے جڑی رہیں اور موجودہ معاشرے کی عکاسی کرتی ہیں۔ ان علامتوں کی تفہیم اور ان کا احترام بھارت کے شہریوں میں قومی شناخت اور حب الوطنی کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔