تاریخی انسائیکلوپیڈیا

بھارت کی آزادی کی تحریک

برطانوی نوآبادیاتی حکمرانی سے آزادی کے لیے بھارتی عوام کی جدوجہد کی تاریخ

تعارف

بھارت کی آزادی کی تحریک میں بھارتی عوام کی برطانوی نوآبادیاتی حکومت سے آزادی کے لیے 90 سال سے زیادہ کی جدوجہد شامل ہے۔ یہ 19ویں صدی کے آخر میں شروع ہوئی اور 1947 میں بھارت کی آزادی کے اعلان کے ساتھ ختم ہوئی۔ اس طویل جدوجہد کے دوران، ہندوستانیوں نے مزاحمت کے مختلف طریقے استعمال کیے، بشمول غیر تشدد احتجاج، مسلح بغاوتیں اور سیاسی سفارتی سرگرمیاں۔ یہ دور بھارتی قوم کی تشکیل کا دور تھا اور مہاتما گاندھی، جواہر لعل نہرو اور سبھاس چندر بوس جیسے عظیم رہنماوں کی پیدائش کا وقت تھا۔

ابتدائی مراحل: 19ویں صدی کا آخر — 20ویں صدی کا آغاز

بھارت کی آزادی کی جدوجہد کا پہلا مرحلہ 19ویں صدی کے آخر میں شروع ہوا، جب 1885 میں بھارتی قومی کانگریس (آئی این سی) کا قیام عمل میں آیا۔ ابتدائی طور پر کانگریس نے بتدریج اصلاحات، بھارتیوں کے حکومت میں زیادہ نمائندگی اور زندگی کے حالات بہتر کرنے کا مطالبہ کیا۔ اُس وقت مکمل آزادی کے بارے میں نظریات زیادہ عام نہیں ہوئے تھے، اور کانگریس کے زیادہ تر رہنما برطانوی انتظامیہ کے ساتھ تعاون کے خواہاں تھے۔

تاہم، برطانوی استحصال اور ثقافتی اختلافات کی وجہ سے قومی خود آگاہی کے بڑھنے نے معاشرے کو شدت پسندی کی طرف بڑھایا۔ 20ویں صدی کے آغاز میں، بہت سے ایکٹوسٹ جیسے بال گنگادھر تلک نے خود مختاری اور آزادی کی جدوجہد میں زیادہ عزم کے ساتھ اقدامات کا مطالبہ کیا۔ یہ مطالبات خاص طور پر اس وقت زیادہ اہم ہوگئے جب برطانویوں نے مذہبی لحاظ سے ہندو اور مسلمانوں کے درمیان بھارتی معاشرت کو تقسیم کرنے کی پالیسی لائی۔

مہاتما گاندھی اور غیر تشدد کی فلسفہ

بھارت کی آزادی کی تحریک میں مہاتما گاندھی نے کلیدی کردار ادا کیا، جو 1915 میں جنوبی افریقہ میں بھارتیوں کے حقوق کے لیے کامیاب جدوجہد کے بعد بھارت واپس آئے۔ گاندھی نے غیر تشدد مزاحمت کی ایک حکمت عملی تیار کی، جسے ستیہ گرہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ انہوں نے یقین دلایا کہ عوامی غیر تشدد مزاحمت برطانوی حکمرانی کے خلاف لڑنے کا سب سے موثر طریقہ بن سکتی ہے۔

گاندھی کی قیادت میں پہلا بڑا احتجاج 1930 میں نمک پر ٹیکس کی نافرمانی تھا، جسے نمک مارچ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ احتجاج برطانوی حکومت کی غیر منصفانہ ٹیکس نظام کے خلاف جدوجہد کا علامت بن گیا اور اس نے ملک بھر میں بڑے پیمانے پر حمایت جمع کی۔ لاکھوں افراد نے برطانوی مصنوعات اور خدمات کے بائیکاٹ کی مہمات میں حصہ لیا، جس نے نوآبادیاتی حکومت کے اقتصادی مفادات کو شدید نقصان پہنچایا۔

پہلی جنگ عظیم اور قومی شعور کا عروج

پہلی جنگ عظیم (1914-1918) بھارت کے قومی آزادی کے اقدام میں ایک اہم مرحلہ بنی۔ برطانوی سلطنت نے جنگ کے محاذ پر ہزاروں بھارتیوں کو بلایا، یہ وعدہ کرتے ہوئے کہ جنگ کے اختتام پر اصلاحات اور مزید حقوق فراہم کیے جائیں گے۔ تاہم، جنگ کے خاتمے پر برطانویوں نے اپنے وعدے پورے نہیں کیے، جس کی وجہ سے بھارت میں بڑے پیمانے پر ناپسندیدگی پیدا ہوئی۔

قوم پرست جذبات کی افزائش نے 1919 میں بڑے پیمانے پر احتجاجوں اور شہری نافرمانی کی کارروائیوں کو جنم دیا۔ اسی سال، برطانوی انتظامیہ نے رولیٹ قانون منظور کیا، جس نے سیاسی اپوزیشن کے خلاف دباؤ میں اضافہ کیا۔ اس کے جواب میں بھارت کی تاریخ کے ایک بدقسمت واقعے — جلیانوالہ باغ کے قتل عام — کا واقعہ پیش آیا۔ اپریل 1919 میں، برطانوی فوج نے بغیر ہتھیاروں کے مظاہرین کے ہجوم پر فائرنگ کی، جس نے سیکڑوں افراد کی جانیں لیں۔ یہ واقعہ بھارت بھر میں غصے کی ایک لہر کو جنم دیا اور لوگوں کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے کی عزم کو مضبوط کر دیا۔

خود مختاری کے لیے جدوجہد: 1920-1930 کی دہائیاں

1920 کی دہائی میں ، مہاتما گاندھی اور دیگر رہنماوں کی قیادت میں بھارتی قومی کانگریس نے خود مختاری کے لیے ایک فعال مہم کا آغاز کیا۔ کانگریس نے کئی غیر تشدد مزاحمت کی مہمات چلائیں، برطانوی مصنوعات کا بائیکاٹ کرتے ہوئے، نوآبادیاتی حکومت کے ساتھ تعاون سے انکار کرتے ہوئے اور عوامی احتجاجوں کی دعوت دیتے ہوئے۔

تاہم، بھارتی سیاستدانوں کے درمیان آزادی کی جدوجہد پر دیگر نظریات بھی تھے۔ مثال کے طور پر، سبھاس چندر بوس نے سمجھا کہ گاندھی کے غیر تشدد کے طریقے موثر نہیں ہیں، اور انہوں نے زیادہ عزم کے ساتھ اقدام کا مطالبہ کیا، یہاں تک کہ مسلح بغاوت کی بات کی۔ 1939 میں، بوس نے بھارتی قومی فوج (آئی این اے) کی بنیاد رکھی، جس نے دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپان کے ساتھ تعاون کیا اور برطانوی فوجوں کے خلاف لڑائی کی۔

دوسری جنگ عظیم اور جدوجہد کی شدت

دوسری جنگ عظیم (1939-1945) بھارت کی آزادی کی جدوجہد میں ایک موڑ تھی۔ برطانوی انتظامیہ نے دوبارہ بھارتیوں کو جنگ کے محاذ پر بلایا، بغیر بھارتی رہنماوں سے مشورہ کیے۔ یہ غصے کی لہر کو جنم دینے کا باعث بنا اور نئے احتجاجوں کی طرف لے گیا۔ 1942 میں، مہاتما گاندھی اور کانگریس نے "بھارت چھوڑو" مہم شروع کی، جس میں فوری طور پر برطانوی فوجوں کی واپسی اور بھارت کو آزادی فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔

برطانوی حکومت نے کانگریس کے رہنماوں کو، بشمول گاندھی، گرفتار کر کے جواب دیا، جس کے نتیجے میں ملک بھر میں بڑے پیمانے پر احتجاج اور ہنگامے پھوٹ پڑے۔ اس دوران، سبھاس چندر بوس اور ان کی بھارتی قومی فوج نے ایشیا میں جاپانی قوتوں کے ساتھ لڑائی جاری رکھی۔ دباؤ کے باوجود، برطانوی حکومت پر دباؤ بڑھتا گیا۔

بھارت کی تقسیم اور آزادی کا حصول

دوسری جنگ عظیم کے ختم ہونے کے بعد، برطانیہ اقتصادی اور سیاسی طور پر کمزور ہوگیا، جس سے بھارت میں نوآبادیاتی حکمرانی جاری رکھنا ناممکن ہوگیا۔ 1947 میں، برطانوی حکومت نے بھارت کو آزادی دینے کا فیصلہ کیا۔ لیکن آزادی کا حصول ایک انتہائی پیچیدہ اور دردناک عمل تھا، کیونکہ بھارتی معاشرت مذہبی بنیادوں پر تقسیم تھی۔

مسلم لیگ، جس کی قیادت محمد علی جناح کر رہے تھے، نے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ ریاست — پاکستان — کے قیام پر اصرار کیا۔ نتیجے کے طور پر، برطانیہ نے مذہبی اصولوں کے تحت بھارت کی تقسیم پر اتفاق کیا۔ 15 اگست 1947 کو بھارت اور پاکستان نے آزادی حاصل کی، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر نقل مکانی اور مذہبی کمیونٹیز کے درمیان خونریز تصادم ہوئے۔

نتیجہ

بھارت کی آزادی کی تحریک عالمی تاریخ کی سب سے اہم نوآبادیاتی مخالفت کی مہموں میں سے ایک تھی۔ اس نے غیر تشدد اور عوامی شہری مزاحمت کی طاقت کو ظاہر کیا۔ آزادی کے لیے جدوجہد نے بھارت کی تاریخ میں گہرا نشان چھوڑا، جس نے اس کی سیاسی ثقافت اور قومی خود آگاہی کی تشکیل کی۔ ملک کی تقسیم کے سخت نتائج کے باوجود، 1947 میں آزادی کا حصول بھارت کی تاریخ میں ایک اہم لمحہ بن گیا اور دیگر قوموں کو اپنے حقوق اور آزادی کی جدوجہد کے لیے تحریک دی۔

بانٹنا:

Facebook Twitter LinkedIn WhatsApp Telegram Reddit email

دیگر مضامین: