تاریخی انسائیکلوپیڈیا

ہمیں Patreon پر سپورٹ کریں

تعارف

ریاستی علامتیں قومی شناخت کا ایک اہم عنصر ہیں، جو ملک کی تاریخ، ثقافت اور اقدار کی عکاسی کرتی ہیں۔ علامتیں، جیسے کہ نشان، جھنڈا اور قومی ترانہ، ریاستی اختیار کی نمائندگی کرتی ہیں، ساتھ ہی قوم کے نظریات اور خواہشات کی عکاسی کرتی ہیں۔ شام میں ریاستی علامتیں گہرے تاریخی جڑیں رکھتی ہیں اور ملک کی ترقی کے مختلف مراحل، اس کی سیاسی تبدیلیاں، اور دیگر عرب ممالک کے ساتھ اس کے تعلقات کی عکاسی کرتی ہیں۔ اس حصے میں ہم شام کی ریاستی علامتوں کی تاریخ، ان میں ہونے والی تبدیلیوں اور ملک کی ترقی کے مختلف مراحل میں ان کی اہمیت پر غور کریں گے۔

عثمانی سلطنت کے تحت ابتدائی علامتیں اور علامتیں

400 سال سے زیادہ عرصے تک شام عثمانی سلطنت کے زیر سایہ رہا (1516-1918)۔ اس وقت، ملک کی اپنی ریاستی علامتیں نہیں تھیں، کیونکہ یہ ایک بڑی سلطنت کا حصہ تھا۔ بنیادی علامتیں وہ تھیں جو پوری عثمانی سلطنت کی نمائندگی کے لیے استعمال ہوتی تھیں، جیسے کہ عثمانی نشان اور جھنڈا۔ عثمانی سلطنت کے نشان میں سلطان کی تصویریں شامل تھیں، جو ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے تھیں، اور ایسے عناصر جو اسلامی عقیدہ کی نمائندگی کرتے تھے۔

بیسویں صدی کے آغاز میں عثمانی سلطنت کے زوال کے بعد شام فرانسیسی عہد اقتدار میں آ گیا۔ یہ دور شام کی ریاستی علامتوں کی تشکیل کے لیے ایک اہم مرحلہ ثابت ہوا۔

فرانسیسی عہد اقتدار اور قومی علامتیں بنانے کی پہلی کوششیں

پہلی عالمی جنگ کے اختتام کے بعد شام فرانس کی تحویل میں آ گیا۔ فرانسیسی عہد اقتدار (1920-1946) کے دوران شام نے محدود خود مختاری حاصل کی، اور اس دور کی ریاستی علامتیں بڑی حد تک فرانسیسی کنٹرول سے منسلک تھیں۔ تاہم، وقت کے ساتھ ساتھ شام میں آزادی کی تحریکیں ابھریں، اور کچھ علامتیں شام کی شناخت سے وابستہ معنی حاصل کرنے لگیں۔

ایسی علامتوں میں سے ایک شام کی سلطنت کا نشان تھا، جو 1920 میں منظور کیا گیا، جب شام فیصلی اول کے تحت سلطنت بن گیا۔ نشان میں ایک باز دکھایا گیا، جو طاقت اور خود مختاری کی علامت تھا، اور عربی عناصر شامل تھے، جو شام کے عربی دنیا سے تعلق کو اجاگر کرتے تھے۔ تاہم، جب 1920 میں فرانس نے عملاً شام کے بڑے حصے کو ضم کر لیا، تو علامت نے اپنا قومی رنگ کھو دیا۔

آزادی اور علامتوں میں پہلی تبدیلیاں

1946 میں شام نے آزادی حاصل کی، اور ملک میں اپنی ریاستی علامت کی تشکیل کا عمل شروع ہوا۔ اس دوران ایک نئی علامت منظور کی گئی، جو ملک کی آزادی اور قومی شناخت کی خواہش کی عکاسی کرتی تھی۔ اس دور میں شام کے نشان میں شام کے باز کی تصویر شامل تھی، جو طاقت اور عزم کی علامت بنی۔ اس کے علاوہ نشان میں عربی عناصر موجود تھے، جیسے کہ پام کے پتے، جو امن اور خوشحالی کی علامت ہیں، اور عربی تحریر، جو شام کے عوام کی یکجہتی کی نمائندگی کرتی ہے۔

تاہم، بیسویں صدی کے وسط میں شام میں سیاسی اور سماجی تبدیلیوں نے ریاستی علامتوں میں تبدیلیوں کا سبب بنی۔ 1958 میں، جب شام نے مصر کے ساتھ متحدہ عرب جمهوریہ میں شمولیت اختیار کی، تو ایک نیا جھنڈا تیار کیا گیا، جس میں سبز، سفید، کالے اور سرخ دھاریاں تھیں، اور ستارے شامل تھے، جو دونوں ممالک کے اتحاد کی نمائندگی کرتے تھے۔

1963 سے اب تک: نئی علامتوں کا تعارف

1963 سے، جب شام میں سوشلسٹ قوتیں اقتدار میں آئیں، ریاستی علامتیں مزید ایک تبدیلی سے گزریں۔ پہلے ایک نیا جھنڈا منظور کیا گیا، جو ملک کے سیاسی نظام میں تبدیلیوں اور عرب سوشیالزم کی طرف اشارہ کرتا تھا۔ جھنڈے میں دوبارہ سبز، سفید، کالے اور سرخ دھاریاں آئیں، اور اس کے ساتھ دو سبز ستارے شامل تھے، جو شام اور مصر کے اتحاد کی نمائندگی کرتے تھے۔ یہ جھنڈا شام کا سرکاری جھنڈا 1980 تک رہا۔

1980 میں، جب شام نے بالآخر مصر سے اپنی آزادی حاصل کر لی، تو جھنڈے میں تبدیلی کی گئی۔ نئے جھنڈے میں وہی رنگ برقرار رہے، لیکن ستارے ہٹا دیے گئے، اور جھنڈے کی علامت شام کی قومی شناخت پر مزید مرکوز ہو گئی۔ یہ جھنڈا اور نشان آج تک شام میں برقرار ہیں، حالانکہ حالیہ برسوں میں ملک کی سیاسی صورتحال کے مطابق نئے جھنڈے اور نشان کے متبادل جاری کیے گئے ہیں۔

شام کا نشان: علامتیں اور تبدیلیاں

شام کے نشان نے ترقی کے چند مراحل سے گزرے ہیں۔ 1946 میں آزادی کے حصول کے بعد سے آج تک ملک کا نشان ملک کی سیاسی صورتحال کے لحاظ سے بدلتا رہا ہے۔ آزادی کے آغاز میں نشان میں شام کے باز کی تصویر تھی، جو طاقت اور خود مختاری کی علامت تھا۔ تاہم، 1961 میں، جب شام نے متحدہ عرب جمهوریہ چھوڑا، تو نشان میں تبدیلی کی گئی: اس میں عربی باز کو دکھایا گیا، جو عرب دنیا کی طاقت اور خود مختاری کی علامت بن گیا۔

1980 میں، نشان کو مکمل طور پر تبدیل کیا گیا، اور اس میں عربی باز کو دو سبز پام کے پتے کے پس منظر میں دکھایا گیا، جو امن اور خوشحالی کی علامت ہیں۔ یہ نشان نہ صرف شام کی آزادی کی نمائندگی کرتا ہے، بلکہ عرب دنیا میں اس کے کردار کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ یہ نشان آج تک موجود ہے اور شام کے سرکاری ریاستی علامت کے طور پر مخفوظ ہے۔

شام کا جھنڈا: تاریخ اور اہمیت

شام کے جھنڈے نے کئی مراحل کی تبدیلیوں کو دیکھا ہے۔ ابتدائی مراحل میں، بیسویں صدی کے آغاز میں، جب شام فرانسیسی تحویل میں تھا، اس نے فرانسیسی علامتیں استعمال کیں۔ 1946 میں آزادی کے حصول کے بعد ایک نئے جھنڈے کی منظوری دی گئی، جس میں تین رنگ شامل تھے: سبز، سفید اور کالا، جو عرب قومی شناخت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ 1958 میں، مصر کے ساتھ اتحاد کے بعد، جھنڈے کو تبدیل کیا گیا، جس میں دو سبز ستارے تھے، جو دونوں ممالک کے اتحاد کی علامت تھے۔

1963 کے بعد، شام کا جھنڈا اس کی سوشلسٹ سمت کی نمائندگی کرنے لگا، اور مصر کے ساتھ اتحاد کی بھی علامت بنا۔ 1980 میں مصر سے علیحدگی کے بعد، جھنڈے سے ستارے ہٹا دیے گئے، اور یہ خالصتاً شام عرب جمهوریہ کی نمائندگی کرنے لگا۔ یہ جھنڈا آج بھی شام کے سرکاری علامت کے طور پر برقرار ہے۔

نتیجہ

شام کی ریاستی علامتیں نہ صرف اس کی طویل اور امیر تاریخ کی عکاسی کرتی ہیں، بلکہ ایسے سیاسی تبدیلیوں کی بھی جو 20ویں صدی میں ہوئیں اور اب بھی جاری ہیں۔ نشان، جھنڈا اور ملک کی دیگر علامتیں قومی شناخت اور یکجہتی کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ سیاسی بحرانوں اور طاقت کی تبدیلیوں کے باوجود، علامتیں شام کی ثقافت اور تاریخ کا ایک اہم عنصر رہتی ہیں، اور شام کے عوام کے لئے ایک ربط کا ذریعہ بنتی ہیں۔

بانٹنا:

Facebook Twitter LinkedIn WhatsApp Telegram Reddit Viber email

دیگر مضامین:

ہمیں Patreon پر سپورٹ کریں