تاریخی انسائیکلوپیڈیا

رومی اور بازنطینی دور کی تاریخ شام میں

تعارف

رومی اور بازنطینی دور کی تاریخ شام میں ایک اہم مرحلہ ہے، جو عیسوی پہلی صدی سے ساتویں صدی تک آٹھ صدیوں سے زائد کا احاطہ کرتا ہے۔ یہ دور بڑی تبدیلیوں، ثقافتی تبادلے اور سیاسی تبدیلیاں کا وقت تھا، جب شام رومی اور بازنطینی سلطنتوں کا مرکز بن گیا۔

رومی شام

64 قبل از مسیح سے شام رومی سلطنت کا حصہ بن گئی۔ ابتدا میں یہ ایک صوبہ تھا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ ایک اہم علاقے میں تبدیل ہوگیا، اپنے تجارتی راستوں کے سنگم پر واقع ہونے کی وجہ سے۔ رومیوں نے بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے لئے سڑکیں، پانی کی پائپ لائنیں، تھیٹر اور مندریں بنائیں، جس سے اقتصادی اور ثقافتی عروج کو فروغ ملا۔

اس دور کا ایک خاص شہر انطاکیہ تھا، جو جلد ہی رومی سلطنت کے بڑے اور بااثر شہروں میں سے ایک بن گیا۔ انطاکیہ اپنے خطابت، فلسفہ اور طب کے مراکز کے لئے مشہور تھی۔ یہ شہر ثقافتی اور مذہبی مرکز بن گیا، جس نے پورے علاقے کے علمائے کرام اور فلسفیوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔

رومی حکومت کے تحت شہری ترقی میں تیزی آئی۔ کئی شہر، جیسے کہ پالمیرہ اور دمشق، رومی معیارات کے مطابق دوبارہ تعمیر کیے گئے، جن میں عوامی عمارتیں، فورم اور ستون شامل تھے۔ رومی معماروں اور انجینئروں نے نئی ٹیکنالوجی متعارف کروائی، جو شاندار عمارتوں کی تعمیر کا باعث بنی۔

معیشت اور معاشرہ

رومی شام کی معیشت متنوع تھی اور اس میں زراعت، تجارت اور دستکاری شامل تھے۔ اس علاقے میں اناج، زیتون کے درخت اور انگور کی پیداوار ہوتی تھی، اور بھیڑ بکریاں بھی پالی جاتی تھیں۔ زراعی پیداوار کو سلطنت کے دیگر علاقوں میں برآمد کیا جاتا تھا، جس نے خوشحالی کا اضافہ کیا۔

معاشرتی ڈھانچہ ہیرارکی تھا۔ اوپر رومی سینیٹر اور مقامی اشرافیہ تھے جو زمینوں کا انتظام کرتے اور ٹیکس جمع کرتے تھے۔ نیچے آزاد شہری، دستکار اور کسان تھے۔ غلامی بھی معیشت میں اہم کردار ادا کرتی تھی، اور بہت سے دولت مند رومیوں کے پاس کئی غلام تھے۔

ثقافت اور مذہب

رومی ثقافت نے شام کے معاشرت پر گہرا اثر ڈالا۔ یونانی-رومی روایات، فن اور فن تعمیر مقامی طریقوں میں شامل کی گئیں۔ رومی اپنے خداؤں کو لائے، اور مقامی مذاہب نئے حالات کے مطابق ڈھل گئے۔ رومی توہمات اور بادشاہ کے کلٹ کو بھی فروغ ملا، مگر مقامی دیوتاؤں کی پوجا بھی جاری رہی۔

عیسوی پہلی صدی میں عیسائیت کے فروغ کے ساتھ علاقے کے مذہبی نقشے میں تبدیلی شروع ہوئی۔ انطاکیہ عیسائیت کے اولین مراکز میں سے ایک بن گئی، جہاں پہلی عیسائی جماعتیں وجود میں آئیں۔ عیسائی بزرگ، جیسے کہ پطرس، نے شہر کی تاریخ میں اپنا نشان چھوڑا، اور وقت گزرنے کے ساتھ عیسائیت غالب مذہب بن گئی۔

بازنطینی دور

395 عیسوی میں رومی سلطنت کی تقسیم کے بعد شام مشرقی رومی سلطنت، جسے بازنطینی سلطنت بھی کہا جاتا ہے، کا حصہ بن گئی۔ یہ دور مزید ثقافتی اور اقتصادی عروج کا تھا۔ بازنطینیوں نے بنیادی ڈھانچے کی ترقی جاری رکھی، چرچ، قلعے اور سڑکیں بنائیں، رومی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے۔

بازنطینی شام ثقافتوں اور مذاہب کے ملنے کی جگہ تھی۔ یونانی زبان انتظامیہ اور ثقافت کی زبان بن گئی، اور عیسائیت ریاست کا مذہب بنی۔ بازنطینی سلطنت نے خارجی خطرات، بشمول فارس اور عربوں سے اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لئے فعال اقدامات کیے، جس کا اثر علاقے کے اندرونی معاملات پر بھی ہوا۔

بازنطینی ثقافت شام میں فن، خاص طور پر فن تعمیر میں ترقی کی عکاسی کرتی تھی۔ چرچ، جیسے کہ انطاکیہ میں حواریوں کی کلیسیا، بازنطینی طرز میں بنائے گئے تھے، جس میں مخصوص گنبد اور موزیک شامل تھے۔ بازنطینی فنکاروں نے شاندار فریسکیز اور statuettes بنائے، جو مذہبی فن کا ایک اہم حصہ بن گئے۔

اقتصادی اور اجتماعی تبدیلیاں

بازنطینی شام کی معیشت متنوع رہی، لیکن اس دور میں تبدیلیاں شروع ہوئیں۔ نئے تجارتی راستے تیار ہوئے، اور شہر تجارتی مراکز کے طور پر پھلنے پھولنے لگے۔ تاہم، ساتویں صدی میں عرب کے فتوحات کے آغاز کے ساتھ اقتصادی استحکام کمزور ہونے لگا۔

معاشرہ ہیرارکی میں باقی رہا، لیکن بازنطینی بادشاہوں نے کسانوں کی بہتری کے لئے مختلف اصلاحات کے اقدامات کئے۔ مگر بہت سے کسان بھاری ٹیکسوں اور مقامی حکام کے بے جا رویے کی وجہ سے مشکلات کا شکار رہے۔ یہ حالات معاشرتی تناؤ پیدا کرتے رہے اور عوامی عدم اطمینان کو بڑھاوا دیا۔

خلاصہ

رومی اور بازنطینی دور شام میں ثقافتی اور اقتصادی عروج کا وقت تھا، جس نے علاقے کی تاریخ پر گہرا اثر ڈالا۔ ان دوروں کی وراثت آج بھی شام پر اثر انداز ہوتی ہے، اس کی ثقافتی شناخت اور تاریخی یادداشت کی تشکیل کرتی ہے۔ مختلف ثقافتوں، مذاہب اور روایات کے باہمی تعامل نے ایک منفرد ثقافتی منظرنامہ تیار کیا، جو آج تک موزوں ہے۔

بانٹنا:

Facebook Twitter LinkedIn WhatsApp Telegram Reddit email

دیگر مضامین: