بیسویں صدی شام کی تاریخ کے سب سے اہم ادوار میں سے ایک بن گئی، جس نے ملک کو سیاسی اور سماجی تبدیلیوں سے نوازا۔ یہ دور فرانسیسی مینڈیٹ سے شروع ہوا، جو پہلی جنگ عظیم کے بعد شام پر کنٹرول قائم کرتا ہے، اور سیاسی طرز حکومتوں، شہری تنازعات اور آزادی کی جدوجہد کی کثرت کے ساتھ ختم ہوتا ہے، یہ صدی شامی معاشرے پر گہرا اثر چھوڑ گئی۔
1918 میں عثمانی سلطنت کے خاتمے کے بعد شام فرانس کے کنٹرول میں آگیا، جس نے 1920 میں اس علاقے کے انتظام کے لئے مینڈیٹ حاصل کیا۔ فرانسیسی مینڈیٹ کا دور 1946 تک جاری رہا اور اس نے ملک کی سیاسی ساخت اور سماجی ڈھانچے میں بڑی تبدیلیاں پیدا کیں۔ فرانسیسی حکومت نے شامی قومی جذبات کو کمزور کرنے کے لیے شام کو کئی خودمختار صوبوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کی۔ یہ بات بڑے مظاہروں اور بغاوتوں کا باعث بنی، جیسے 1925-1927 کی بڑی شامی بغاوت، جس میں شامیوں نے نوآبادیاتی تسلط سے چھٹکارا پانے کی کوشش کی۔
شام اور مشرق وسطیٰ میں قومی جذبات کے بڑھنے کے ساتھ، فرانسیسیوں نے یہ سمجھنا شروع کیا کہ ان کا ملک پر کنٹرول مزید غیر مستحکم ہوتا جا رہا ہے۔ 1946 میں دوسری جنگ عظیم کے بعد، جب فرانس اپنی معیشت کی بحالی میں مصروف تھا، شام نے بالآخر آزادی حاصل کر لی۔ 17 اپریل 1946 کو شام کی آزادی کا دن مانا جاتا ہے، اور یہ دن نوآبادیاتی حکومت کے خاتمے کی علامت بن گیا۔
آزادی حاصل کرنے کے بعد شام کو متعدد داخلی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ سیاسی صورتحال غیر مستحکم تھی، حکومتوں کی باقاعدہ تبدیلیوں اور فوجی بغاوتوں کی کوششوں کے ساتھ۔ 1949 میں پہلی فوجی مداخلت ہوئی، جو آنے والے برسوں میں پیدا ہونے والے بغاوتوں کی سیریز کا آغاز بنی۔ سماجی اور اقتصادی مسائل، جیسے غربت اور بنیادی ڈھانچے کی کمی، صورتحال کو صرف بڑھاوا دے رہے تھے۔
1948 میں اسرائیل کی ریاست کے قیام کے بعد، پہلا عرب-اسرائیلی تنازعہ شروع ہوا، جس میں شام نے فعال طور پر مداخلت کی۔ جنگ کے نتیجے میں شامی فوج شکست کھا گئی، اور یہ تنازعہ شام اور اسرائیل کے درمیان گہرے اختلافات کا باعث بن گیا۔ اگلی دہائی کے دوران متعدد جھڑپیں اور تنازعات ہوئے، جن میں 1967 کی شامی جنگ شامل ہے، جس نے گولان کی بلندیوں کے نقصان کا سبب بنی۔ یہ علاقائی مسئلہ آج بھی اہمیت رکھتا ہے۔
1970 میں ایک اور فوجی بغاوت ہوئی، جس کے نتیجے میں شام کی حکومت جنرل حافظ اسد کے پاس چلی گئی۔ ان کی حکومت کو اتھارٹی کے اندازِ حکمرانی اور طاقتور سیکیورٹی اپریٹس کی تشکیل کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے۔ اسد نے معیشت کی جدید کاری کی کوششیں کیں، تاہم سیاسی دباؤ اور جمہوریت کی عدم موجودگی ان کے نظام کی اہم خصوصیات بن گئیں۔
حافظ اسد نے اس خطے میں شام کے اثر و رسوخ کو مضبوط کرنے کی کوشش کی اور عرب سیاست میں فعال کردار ادا کیا۔ وہ عرب ممالک کے رہنماؤں میں سے ایک بن گئے اور اسرائیل کے خلاف ایک متحد عرب محاذ قائم کرنے کی کوشش کی۔ اسد نے مختلف فلسطینی تحریکوں کی بھی حمایت کی، جس کی وجہ سے مغربی ممالک کے ساتھ تناؤ بڑھا۔
بیسویں صدی میں شام کی معیشت میں بڑی تبدیلیاں آئیں۔ زراعت زیادہ تر آبادی کے لئے آمدنی کا بنیادی ذریعہ بنی رہی، تاہم 1960 کی دہائی میں صنعتی ترقی کا آغاز ہوا، جس نے شہروں کی ترقی اور معیشت کے ڈھانچے کی تبدیلی میں معاونت کی۔ لیکن اقتصادی اصلاحات ہمیشہ متوقع نتائج نہیں دے پائیں، اور بہت سے شامیوں کی معیار زندگی کم ہی رہ گئی۔
سماجی تبدیلیاں بھی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر اثر انداز ہوئیں۔ تعلیم زیادہ قابل رسائی ہوگئی، اور بہت سے شامیوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا شروع کردیا۔ اسی وقت، خواتین کے حقوق اور برابری کی جدوجہد ایک اہم مسئلہ رہی، اگرچہ کچھ کامیابیاں بھی حاصل کی گئیں۔
2011 کے آغاز میں اور اس کے بعد شام میں اسد کی حکومت کے خلاف بڑے مظاہرے شروع ہوئے، جو "عرب بہار" سے متاثر تھے۔ مظاہرین نے سیاسی اصلاحات، تشدد کی روک تھام، اور زندگی کے حالات میں بہتری کا مطالبہ کیا۔ مظاہروں کا جواب سختی سے دبا کر دیا گیا، جس نے تنازعہ کے بڑھنے اور شہری جنگ شروع ہونے کا باعث بن گیا۔
شام کی شہری جنگ نے انسانی بحران کی صورت اختیار کر لی، لاکھوں لوگ مہاجرین بن گئے، اور ملک کی معیشت تباہ ہوگئی۔ مختلف بین الاقوامی قوتوں اور گروہوں کی مداخلت، جیسے اسلامی ریاست اور کرد فورسز، صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا اور تنازعہ کے پرامن حل تلاش کرنے میں مشکلات پیش آئیں۔
بیسویں صدی کے دوران شام نے متعدد امتحانات اور تبدیلیوں کا سامنا کیا۔ فرانسیسی مینڈیٹ سے لیکر جدید تنازعات تک، یہ دور شامی شناخت اور سیاسی ثقافت کی تشکیل کے لئے فیصلہ کن رہا۔ مشکل وقت اور تباہیوں کے باوجود، شامی لوگ امن اور استحکام کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں، اپنی ملک کے لئے بہتر مستقبل کی امید رکھتے ہیں۔